تحریر: شاہ بانو میر
کوفہ میں ایک سید زادہ فوت ہوگیا ۔ جنازہ میں کوفہ کے بڑے بڑے لوگ موجود تھے۔ سب ساتھ چل رہے تھے کہ اچانک جنازہ رک گیا۔ لوگوں نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اس لڑکے کی ماں بیتاب ہو کر نکل پڑی ہے اس عورت نے جنازہ پر اپنا کپڑا ڈال دیا اور اپنا سر کھول دیا۔ عورت شریف خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اس میت کے باپ اور اس عورت کے خاوند نے چلا کر کہا یہیں سے واپس چلی جاؤ مگر اس نے واپس ہونے سے انکار کر دیا۔ باپ نے قسم کھا لی کہ”لوٹ جاؤ ورنہ تجھے طلاق۔” جب کہ اس عورت نے بھی قسم کھالی کہ”اگر میں نماز جنازہ سے پہلے لوٹوں تو میرے سارے غلام آزاد۔
قسم کھاتے ہی دونوں کو احساس ہوگیا کہ انہوں نے کتنی بڑی غلطی کی ہے ۔ اب اگر عورت میت کے ساتھ جنازہ گاہ تک جاتی تو اسے طلاق ہوجاتی اور اگر وہ وہیں سے واپس ہوتی تو اس کے سارے غلام آزاد ہوجاتے ۔ سب لوگ پریشان ہوگئے ۔ انہوں نے وہاں موجود بڑے بڑے علماء سے درخواست کی کہ اس مسئلے کا کوئی حل بتائیں لیکن سب نے کہا کہ ایک صورت تو ضرور پوری کرنا پڑے گی۔
مجمعے میں سے کسی نے اسی وقت ایک عالم سے ساری صورت حال بیان کی ۔ انہوں نے میت کے پاس آ کر پوچھا کہ قسم کس کس طرح کھائی گئی ہے چانچہ میت کے باپ اور ماں نے اپنی اپنی قسم بتادی ۔ انہوں نے فرمایا کہ میت کو یہیں رکھا رہنے دو اور سب لوگ اسی جگہ پر صفیں بنا کر نماز جنازہ پڑھ لو ۔ چنانچہ اس سید زادہ کی نماز جنازہ وہیں پر ادا کی گئی ، اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ عورت یہیں سے واپس گھر لوٹ جائے۔
اس کی قسم پوری ہوگئی کہ وہ نماز جنازہ کے بعد واپس جا رہی ہے اور مرد کی قسم بھی پوری ہوگئی کہ اسکی بیوی وہیں سے واپس ہوگئی ہے ۔ سب لوگ ان کی ذہانت پر اش اش کر اٹھے یہ عالم اپنے وقت کے بہت بڑے امام تھے اور آج دنیا انہیں امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے جانتی ہے
تحریر: شاہ بانو میر