تحریر: ملک نذیر اعوان
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے۔اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد نواسہ رسولۖ جگر گوشہ بتول حضرت علی کے فرزند اور سید کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لعل حضرت امام حسین نے سچائی،حق اور اپنے نانا کے دین کے لیے جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کو بلند کیا۔حضور پر نور آقا دو جہاں سرور کائنات احمد مجتبیٰ ۖ کو حضرت امام حسین سے بے حد محبت تھی اس لیے پیارے آقا ۖ نے حضرت امام حسین کے بارے میں فرمایا کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔جس نے حسین سے محبت کی گویا اس نے مجھ سے محبت کی۔بلکہ آپ ۖ نے یہاں تک فرمایا کہ جس نے حسین کودکھ دیا اس نے مجھے دکھ دیا۔حضرت امام حسین کو یزید کی غیر اسلامی حرکات سے بہت نفرت تھی۔اس لیے آپ نے یزید کی بیعت نہ کی ۔آپ نے کھبی بھی رعب اورلالچ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گردن نہ جھکائی۔مکہ جانے سے پہلے آپ نے اپنے ناناپیغمبر مصطفی ٰۖ کے روضہ اقدس پر حاضری دی اور فرمایا،اے نانا جان میں تیرے دین کی سر بلندی کے لیے جا رہا ہوں۔۔مجھے یزید کے سامنے رسوا نہ کرنا۔اس کے بعد آپ نے اپنے اہل و عیال کو ساتھ لیا اور خاموشی سے مدینہ سے کوچ کر کے مکہ پہنچ گئے۔وہاں پہنچے تو اہل کوفہ نے آپ کوخطوط میں لکھا کہ یزید خلیفہ نہیں بلکہ بادشاہ ہے۔ جو ظالم و جابر بھی ہے۔
اس کے خلاف اسلامی اصولوں کی رسوائی ہے ۔ اس لیے آپ کی راہنمائی اور قیادت کی شدت سے ضرورت ہے۔آپ آئیے تاکہ اس غیر اسلامی حکومت کے خلاف جہاد کریں۔یہ مہم خطر ناک لیکن اسلام کی سر بلندی کے لیے تھی۔حضرت امام حسین نے حالات سے با خبر ہونے کے لیے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کر دیا۔مسلم بن عقیل جب کوفہ پہنچے تو وہاں کے حالات ساز گار تھے۔مسلم بن عقیل نے حضرت امام حسین کو کوفہ میں بلایا۔اہل مکہ کے لوگوں کو آپ سے بہت محبت تھی۔ اس لیے انہوں نے آپ کو جانے سے منع کیا ۔لیکن آپ نے اہل مکہ سے مخاطب ہو کر فرمایا۔،کہ اگر آج میں اپنے نانا کے دین کی سر بلندی کے لیے قربانی نہیں دوں گا۔
تو پھر روز قیامت اپنے نانا کے سامنے کیسے سرخرو ہوں گا۔آپ نے اپنے خاندان والوں کو اپنے ہمراہ لیا۔اور کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔سخت گرمی میںتپتی ریت سے گزر کرشعلبیہ کے مقام پر پہنچے تو مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبرملی۔ یزید نے لوگوں سے بیعت لینا شروع کر دی۔اور ابن زیاد کو کوفہ کی حکومت سپرد کر دی۔اور اسے حکم دیا۔کہ حضرت امام حسین کوکوفہ تک پہچنے نہ دیا جائے۔اس دوران حضرت امام حسین مقام اشراف میں پہنچ گئے وہاں سے کربلا کے میدان میں دریائے فرات کے کنارے ڈیرے لگا لیے۔۔ یہ وحشت ناک صحرا تھا۔ جس میں کوئی درخت۔گھاس اور پانی نہ تھا۔خیمے نصب کرنے کے بعد ریت پر تمام لوگ نماز ادا کرنے لگے۔ابن سعد نے حضرت امام حسین کو بیعت کرنے کو کہا۔لیکن آپ نے انکارکردیا۔ ۔اور فرمایا دین کا مرکز مسجد نبوی ہے۔شام کے محلات نہیں ہیں۔
اس دوران شمر نے دریائے فرات پر قبضہ کر کے اہل بیعت کا پانی بند کر دیا۔حضرت امام حسین نے اپنے رفقاء کو بلایا اور فرمایا ہم امن کے لیے آئے ہیں۔۔ہم نے اپنے نانا کے دین کو بچانا ہے۔اور ساتھ ہی فرمایا یہ لوگ صرف میری جان کے درپے ہیں ۔تم سب یہاں سے رات کی تاریکی میں نکل جائو دشمن تمہارا پیچھا نہیں کرے گا۔ لیکن حضرت امام حسین کو کوئی شخص اکیلا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ لیکن دوسری طرف یزید اپنے اقتدار کے نشے میں تھا۔اس نے حضرت امام حسین کی کوئی بات نہ مانی۔دسویں محرم کو ابن سعد نے اپنی فوج کو منظم و مرتب کیا اورحملہ کر دیا۔مقابلے میں حضرت امام حسین کا قافلہ بھہ جوش وخروش سے صف آراء ہوا ہزاروں دشمنوں کے مقابلے میںحضرت امام حسین پر سب کے سب نثار ہو گئے۔حضرت امام حسین لاش پر لاش اٹھاتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنے چھ ماہ کے شیر خار بچے علی اصغر کو بھی قربان کر دیا۔آخر کار آپ خود تلوار لیے دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ اور متعدد دشمنوں کا مقابلہ کیا۔معرکہ کربلا کے آخر میں شمر نے آپ سے کہا کہ آپ نے کیا مانگنا ہے۔تو حضرت امام حسین نے فرمایا۔ کہ مجھے آپ سے کچھ طلب نہیں ہے۔اگر میں نے کچھ مانگنا ہوتا تو میں اپنے اللہ سے مانگتا۔
آخر کار حضرت امام حسین تلواروں ۔نیزوں اور تیروں کے زخموں سے چور ہو کرشہید ہو گئے ۔اوردین برحق کی سر بلندی کانشان بن گئے۔حضرت امام حسین نے باطل کے سامنے گردن نہ جھکائی۔ جان دے دی۔لیکن اصولوں پر سودے بازی نہ کی شہدائے کربلا نے سینے پر زخم سمائے اور آخری منظر یعنی خدا کی خو شنودی حاصل کر کے دم لیا۔اس لیے کربلا کے عظیم معرکے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے۔ کہ ہم شہدائے کر بلا اور جگر گوشہ رسول ۖ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حق و صداقت کا علم بلند کریں۔اور باطل قوتوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوں۔اور جب تک دنیا قائم ہے ۔انسان شہدائے کربلا کی انمول قربانیوں بے مثال بہادریوں،لازوال جزبوں اورقابل تقلید جرائتوں کو بھی فراموش نہیں کر سکتے۔اور یہی وجہ ہے واقعہ کربلا کو پوری دنیا کی تاریخ میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ملک نذیر اعوان