تحریر : ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
لوگ اہلبیت رسول سے تعجب کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ان کا علم ” جفر ” کی صورت میں آیا ہے ۔منجم کا آئینہ جب کہ وہ بہت ہی چھوٹا ہے ،وہ اسے ہر آباد و ویران جگہ دکھاتا ہے أبُوْالْعَلاَ احمدبن عبداللہ بن سلیمان اَلْتَنُوْخِْ اَلْمَعَرِّْ(٩٧٣تا١٠٥٨ء ،حلب) کے اس شعر میں چھٹے خلیفۂ رسول ۖ،امام ِاہلبیت ،سیدنا امام جعفر صادق کے کلام ِ مقدس کی جانب اشارہ ہے ۔خلفائے رسول اللہ ،ائمہ اہلبیت ِاطہار میں ہر ہستی اپنے دورمیں علم نواز وادب پرور ہے ۔سیدنا جعفر صادق ( آپ ٢٦اپریل ٧٠٢ء ،١٧ربیع النور٨٣ھ ،بروز پیر مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔ تریسٹھ برس حیات دنیا میں چونتیس سال امامت فرمائی اور ٣دسمبر٧٦٥ئ، ١٥شوال١٤٨ھ بروز پیر عباسی خلیفہ منصور دوانقی کے گورنر مکہ ومدینہ حسین بن زیدکے انگوروں میں دیے گئے مہلک زہر کے باعث شہید ہوئے ۔)کے دورِامامت میں اجاگرہونے والی تہذیبی و معاشرتی اقدار میںعلم وادب کو نمایاں مقام و مرتبہ حاصل ہے جس کے چار ارکان میں ایک مذہب اور تین علم،ادب اور عرفان ہیں۔آپ نے ہر کسی کو اظہار رائے کی آزادی دی اور مباحثہ کا شعور اجاگر کیا۔تاریخ ِعالم میںکسی مذہب ومکتب میںعلم وادب کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو صَادِقُ الْاَقْوَالْ نے عطا فرمائی۔
آپ نے مذہبیات کے ساتھ ساتھ علم وادب اور عرفان کو بھی اہمیت دے کر اہل ایمان کو علم وادب سے روشناس فرمایااور دین اسلام کی مستحکم بنیادیں قلوب الناس میں راسخ فرمائیں۔آپ کا دور علم وادب اور معارف پروری کا عہد زرّیں تھا۔ آپ کے دروس میں چار ہزار سے زائد طلاب شامل ہوتے جن میں سے کئی اپنے اپنے شعبہ کے امام قرار پائے ۔محتاط اندازے کے مطابق آپ کے شاگردوںکی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہے۔ اس دور کے علماء وادباء ،حجاز ،عراق، شام، خراسان، کابل، سندھ، ہند اور بلاد روم وفرنگ کے دوردراز علاقوں سے آپ کی بارگاہ میں حاضر خدمت ہو کر آپ کے علمی وادبی ذخیرے سے فیضیاب ہوتے اور منازل بعیدہ میں ان کی ترویج واشاعت کا اہتمام کرتے تھے جس باعث آپ کے افکار کئی شہروں میں پھیل کر عمومی استفادے کا سبب بنے۔
آپ کے علمی ،ادبی،فقہی ،عرفانی اور اخلاقی خزائن سے اہل عالم استفادہ کرتے رہتے ہیں۔آپ نے علمی وادبی میدان میں ایک نئی ثقافت کی بنیاد رکھی اور ضبط،صبر،حلم،وقار،تمکنت ،برداشت اور جدید سائنس کا درس عظیم دیا۔آپ پانچ سو علوم پر دسترس رکھتے تھے اور ان کی تدریس فرماتے تھے ۔آپ نے مسجد نبوی شریف ،مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی یونیورسٹی کی تاسیس فرمائی جس میں نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب کے پیروکارغیر مسلم دانشور بھی جوق درجوق علم وادب سے فیضیاب ہوتے اور علمی ،ادبی، نظریاتی وعرفانی موضوعات پر آزادانہ گفتگو کر تے۔معمارِ علم وادب فَاِنَّ الْعِلْمَ لَیْسَ مَایَحْصِلُ بالْسَّمَاع ِوَقِرْأةِالْکُتُبِ وَحِفْظِہَافَاِنَّ ذٰلِکَ تَقْلِیْدوَاِنَّمَاالْعِلْمُ مَایَفِیْضُ مِنْ عِنْدِاللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ عَلیٰ قَلْب ِالْمُؤمِنِ یَوْماًفَیَوْماًوَسَاعَةًفَسَاعَةً فَیَکْشِفُ بہِ مِنَ الْحَقَائِقِ مَاتَطْمَئِنُّ بہِ الْنَّفْسُ وَیَنْشَرحُ لَہُ الْصَّدْرُ وَیَتَنَوَّرُ بہِ الْقَلْبُ یقیناعلم کتب پڑھنے ،حاشیہ رٹنے ،علماکے مقالات اور کتب کے الفاظ حفظ کرنے سے حاصل نہیں ہوتا ۔یہ فقط تقلید ہے اور بے شک علم تو وہ ہے جو مومن کے قلب پر روز بروز ساعت بہ ساعت منجانب اللہ فیضان ہو جس سے حقائق ِ اشیا اور معارف ِحقہ اس پر منکشف ہو جائیں کہ جس سے نفس کو اطمینان ِکلی حاصل ہو جائے اور اُس سے شرح ِصدر ہوجائے اور آئینہ ء دل روشن ہو جائے۔
ادب کے متعلق آپ فرماتے ہیںکہ ادب ایک لباس ہے جو تحریر یا تقریر کو پہناتے ہیں تا کہ اس میں سننے اور پڑھنے والوں کے لیے کشش پیدا ہو ۔آپ کے فرمان کے مطابق تحریرو تقریر کو ادب سے مزید پرکشش بنایا جا سکتا ہے ۔اسی طرح آپ کافرمان ہے ، ” ہر علم میں ادب ہے لیکن ممکن ہے ہر ادب میں علم نہ ہو۔ ”آپ علم وادب دونوںپر توجہ دلاتے اور اپنے حلقہ متعلمین میں دونوں کو فروغ دیتے تھے ۔دین اور ادب کا گہرا رشتہ آپ کے اس فرمان سے واضح ہوتا ہے، ” ہمارادین سراسر ادب ہے ۔جو اسے ملحو ظ رکھے گا فلاح پائے گا۔جس نے ادب چھوڑابے نصیب رہا”۔ آپ فرماتے ہیں ؛” اَنَافَرْعُ مِنْ فَرْع ِالْزَّیْتُوْنِیَّةْوَقِنْدِیْلُ مِنْ قَنَادِیْل اَھْل بَیْتِ الْنُّبُوَّةْوَاَدِیْبُ الْتّفْرَةْ اَرْبِیْبَ الْکرَامِ الْبَرَرَةْوَمِصْبَاحُ مِنْ مِصْبَاح الْمِشْکوٰة الَّتِیْ فِیْھَا نُوْر الْنُّوْر وَصفْر الْکَلمْ الْبَاقِیَةْفِیْ عَقب الْمُصْطَفِیْنَ اِلیٰ یَوْم الْحَشروَالْنُّشُور” ،میںشجر طیب زیتون کی ایک شاخ ہوں اورنبوت کی قندیلوں میں سے ایک قندیل ہوں،ادب ِانبیاء کا حامل ہوں ،مئودب بآداب اکرام ہوںاور اس پر عامل ہوں ، چراغ مشکوٰة سے چراغ ہوں جس میں نور کی تجلی ہے اور برگزیدگان ایزدی کی نسل طیب میں روز قیامت تک کلمہء باقیہ ہوں۔
عرب معاشرہ ادب کا اطلاق صرف شعر پر کرتا تھا اور نثری ادب کا وجود نہ تھا ۔پہلی صدی ہجری میں عربی ادب کے آثار معدود ہیںجن میںباب مدینة العلوم کی نہج البلاغة ونہج الاسرار خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔سیدنا جعفر صادق ،دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں میں نثری ادب کے معمار ہیں۔آپ نے نثری ادب میںانعام کی روایت جاری فرمائی اورنثری یادگار وں پر انعام واکرام عطا فرمائے۔آپ نے اس سلسلے میں ابتدائی طور پر تین منصفین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جو بعد ازاں پانچ ممبران پر مشتمل ہو گئی جن میں سے تین افراد کا مصنف کے حق میں ہونا لازم تھا ۔آپ کے اس اقدام نے نثری ادب کو وسعت دی ۔آپ کے دور میں ہر مصنف اپنے ذوق کے مطابق لکھنے میں آزاد تھا اور وہ جو کچھ لکھتا امام جعفر صادق کی بارگاہ میں پیش کرتا ۔ملاحظہ فرما کر آپ منصفین کے پینل کے سامنے رکھتے اور تین منصفین کی آرا میں اتفاق ،ادیب کو صاحب انعام و اکرام کر دیتا۔
امام جعفر صادق علم وادب کو صرف مذہبی حوالے سے ہی ضروری نہ سمجھتے بلکہ انسانی وقار کی بلند ی اور انسانوں میں اچھی صفات کے فروغ کے لیے بھی علم وادب کو لازمی خیال کرتے تھے ۔وہ معاشرہ جس کے افراد ادیب وعالم ہوں اس میںدوسروں کے حقوق کی پامالی نسبتاََ کم ہوتی ہے ۔اگر معاشرے کے تمام افراد علم و ادب سے آشناہو جائیں تو تمام طبقوں کے باہمی تعلقات خوشگوار ہو جاتے ہیں۔امام جعفر صادق کے نزدیک یہ چار ارکان یعنی مذہب،ادب ،علم اور عرفان اسلام کی تقویت وبقا کے لیے بہت مفید ومئوثر تھے اور معاشرتی تطہیر میں کلیدی حیثیت رکھتے تھے ۔آپ علم وادب کو معاشرے میں انفرادی واجتماعی زندگی کے واجبات قرار دیتے اوراحکام دین کے بعد اہل علم وادب کی قدر ومنزلت بیان فرماتے تھے ۔آپ ادب کو انسانی کمالات کی معراج قرار دیتے فرماتے ہیں،”ادب بہترین کمالات اور سخاوت بہترین عبادت ہے۔ ”
آپ کی جدو جہد کے باعث اسلامی دنیا میں علم و ادب کی توسیع کا آغاز ہوا اور آپ کے اتباع میں دوسری صدی ہجری کے آخری پچاس سال،تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے تمام عرصہ میں ایک بڑی علمی وادبی تحریک وجود میں آئی جس نے علم وادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ معاشرتی حوالے سے بھی گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔اس تحریک کے باعث چوتھی صدی ہجری اسلامی دنیا میں علم وادب کا سنہرا دور تھا جس سے اہل یورپ نے خاطر خواہ استفادہ کیا۔
نزولِ قرآن اور عربی نثر
حضرت محمد مصطفٰی ۖپر نازل ہونے والاقرآن مجید ،عربی ادب کا پہلا نثری سرمایہ ہے ۔ نزول قرآن سے قبل عرب اشعار کے دلدادہ تھے اور نثر کو ادب کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔نزولِ قرآن کے بعد پہلی صدی ہجری میں سوائے باب مدینة العلوم حضرت علی ابن ابی طالب ،آپ کے پوتے حضرت علی ابن الحسین زین العابدین اور پھر حضرت امام محمد باقر کے کسی نے بھی نثری ادب پر توجہ نہیں دی ۔ان خلفائے رسول کے زمانہ تک عرب کے دانشور یہ سمجھتے تھے کہ انہیں اپنے افکار وخیالات کو شعری قالب میں ڈھالنا چاہئے اور ضروریات شعریعنی اوزان وبحر کے باعث وہ لوگ آزادی سے اپنا مافی الضمیر بیان نہیں کر سکتے تھے ۔امام جعفر صادق نے ادبی نثر کی توسیع سے ان مفکرین کو نئے افق عطا کیے جو اس وقت تک اشعار کی بحروں میں قید تھے ۔اس کے بعد جو کوئی اپنی فکر اجاگر کرناچاہتا نثر سے کام لیتا۔
نقد ِتاریخ
امام جعفر صادق نے تاریخی روایات پر تنقیدی نگاہ ڈالی اور نشاندہی فرمائی کہ تاریخی روایات کو تنقید اور گہرے غور وفکر کے بغیر قبول نہیں کرنا چاہیئے ۔آپ تاریخ رقم کرنے میں ابن جریر طبری (م ٣١٠ھ) کے استاد ومربی بنے اور آپ کے عطا کردہ ضابطہ کے تحت ابن جریر طبری نے تاریخ نویسی میں افسانہ نگاری سے گریز کیا اور عقل و فہم انسانی کے لیے قابل قبول تاریخ رقم کی۔ابو جعفر محمد بن جریرطبری حدیث و فقہ کے امام مانے جاتے ہیںاور مجتہد ین کے زمرہ میں آتے ہیں۔آپ کی تیرہ جلدوں پر محیط مفصل وبسیط تاریخ ضابطہء امام جعفر صادق کے اتباع میں مرتب ہوئی۔آپ سے قبل مشرق ِ وسطیٰ میں تاریخ کے کچھ حصے افسانوں پر مشتمل تھے اور اس دور تک تاریخ وافسانہ نگاری میں آمیزش تھی۔ امام جعفر صادق ان میں سے ان تمام کتب کی تاریخی اہمیت کے قائل نہ تھے جن میں تاریخ کے ساتھ افسانے بھی مدغم تھے۔
آپ افسانہ کو تاریخ میں جگہ دینے سے منع کرتے فرمایاکرتے تھے؛”جب افسانہ تاریخ میں مدغم ہو جاتا ہے تو پھر تاریخ کی وقعت باقی نہیں رہتی ۔تاریخ سے آگاہی اس لیے مفید ہے کہ آئندہ آنے والی نسلیں گزرے ہوئے واقعات سے سبق حاصل کرتی اور ایسے کاموں سے پرہیزکرتی ہیںجو ان کے لیے مضر ہیں”۔ آپ اسلام میں وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے تاریخ پر تنقید کی اور ابن ابی الحدید کے بقول تاریخ کو صحیح معنوں میں تاریخ بنانے کی طرف توجہ دلائی۔ معروف مئورخ ،عزالدین عبدالحمید ابن ابی ا لحدیدمحمد(م٦٥٥ھ)کہتے ہیں،”حضرت جعفر صادق کے انتقال کے دو سو سال بعد تک عربستان،بین النہرین ،عراق ، عجم،خراسان اور فارس میں جتنے بھی استاد پڑھاتے تھے امام جعفر صادق کا حوالہ دیتے کہتے تھے ،امام جعفر صادق اس طرح فرماتے ہیں ”۔”چونکہ جعفر صادق کو سب سے بڑا مسلمان عالم سمجھا جاتا ہے اس لیے محقق کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی معلومات سے آگاہی حاصل کرے ”۔امام جعفر صادق نے تاریخ اور افسانے کے حوالے سے تنقید کر کے اجتماعی طور پر تاریخ کو سودمند بنا دیا ہے۔
فلسفہ،کیمیاا وردیگر علوم
امام جعفر صادق کے حلقۂ درس میں اس زمانہ کے تمام علوم پڑھائے جاتے تھے جن میں سے بعض کی تدریس پہلی مرتبہ اسلامی مکتب میں ہوئی تھی ۔امام جعفر صادق کے نزدیک علوم کی ترقی دین کی تقویت کا باعث تھی ۔آپ کے حلقہ درس میں فلسفہ پڑھایا جاتا تھا ۔فلسفہ کے علاوہ آپ کے حلقہء درس میں فزکس،کیمیا،طب،جغرافیہ،ہیئت،حساب اور جیومیٹری بھی دینی علوم کے ساتھ پڑھائی جاتی تھی ۔ امام ِکیمیا،ابو موسیٰ جابر بن حیان بن عبداللہ الصمد صوفی طرطوسی الکوفی (و٧٢٢ھ ،م٨١٣ھ)کی عالمی شہرت یافتہ کتاب ،امام جعفر صادق کے علم کیمیا پر پانچ سورسائل کا مجموعہ ہے ۔ (١۔ وفیات الاعیان وانبائِ ابنائِ الزَّمان المعروف تاریخ ابن ِ خَلِّکَان ْ ازقاضی القضاةعلامہ ابو العباس احمدالبرمکی بن ابراہیم بن ابی بکر بن خلکان بن تائوق بن عبداللہ بن شآکل المعروف ابن ِ خَلِّکَانْ ٦٠٨تارجب ٦٨١ھ،١٢١١تا١٢٨٢ئ، جلد١،ص ١٣٠۔٢۔دائرة معارف القرآن ازعلامہ محمد فرید وجدی،جلد٣،ص ١٠٩) ۔جابر بن حیان نے نوے سال عمر پائی اور بارگاہ ِجعفر صادق کے فیضان سے تین ہزار کتب تحریر کیںجن میں سے بعض پر ناز کرتے ہوئے لکھا کہ ،”روئے زمین پر ہماری اس کتاب کے مثل ایک کتا ب بھی نہیںہے۔آج تک نہ ایسی کتاب لکھی گئی اور نہ قیامت تک لکھی جائے گی۔
”جابر بن حیان نے کیمیا کے علاوہ طبیعات ، ہیئت،رئویا،منطق،طب،سمیّات،تاریخ اوردیگر علوم پر شہرہء آفاق کتب تحریر کیںجو مغرب ویورپ کے مفکرین وسائنسدانوں کے لیے چراغ راہ رہیں۔جابر کے بعض قدیمی مخطوطات برٹش میوزیم میں محفوظ ہیںجن میں”کتاب الخواص”قابل ذکر ہے ۔قرون وسطیٰ میںبعض کتب کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیاجن میں”السبعین”،”الجث عن الکمال”قابل ذکر ہیںجو کیمیا پر یورپی زبانوں میں پہلی کتاب ہے ۔پروفیسر فلپ کے ہٹی نے جابر بن حیان کو ایشیاویورپ میںبابائے کیمیا، ”فادر آف کیمسٹری ” قرار دیا۔
امام جعفر صادق کی تصانیف
امام جعفر صادق کی تصانیف کا شمار ممکن نہیں ۔آپ نے لاتعداد کتب،رسائل،مقالہ جات سے اہل دنیا کو فیضیاب فرمایا۔آپ نے جملہ علوم پر قلمکاری فرمائی اور فلسفہ،کیمیاء ،طبیعات،ہیئت، منطق، تشریح الاجسام، افعال الاعضائ، دینیات،فال، طب،سمیّات، الٰہیات اور مابعد الطبیعات پر تصانیف کا گرانقدر خزانہ سپرد قرطاس فرمایا۔بطون کتب آپ کے علوم سے پر ہیںاور ہنوز ان کا عشر عشیر بھی ظاہر نہیں ہوا۔چند تصانیف وتالیفات کے اسمائے گرامی یہ ہیں،
١۔ ”کتاب الرسائل ” ، آپ کے شاگرد جابر بن حیان سے مروی ہے۔ ٢۔ ” الوصیة لاب جعفر بن النعمان الاحول ”
٣۔ ” الرسالة الی اصحاب الرائے والقیاس ” ٤۔ ”الوصیة لعبداللّٰہ ابن جندب ”
٥۔ ” الرسالة مرو عن الاعمش” ٦۔ ” الرسالةعبداللہ ابن النجاش ”
٧۔ کتاب ”توحید المفضل” ٨۔ ”مصباح الشریعة، مفتاح الحقیقة ”
٩۔ ”الرسالة الی الاصحاب” ١٠۔ ”الرسالة بیان غنائم وجوب الخمس”
١١۔ ”نثر الدرر”
١٢۔ ”کلام فی بیان محبت اہل بیت، توحید، ایمان، اسلام،کفروفسق”
١٣۔ ”وجوہ معایش ا لعبادووجوہ اخراج الاموال ” ١٤۔ ”الرسالة فی احتجاج علی الصوفیة ”
١٥۔ ” کلام فی خلق وترکیب انسان ” ١٦۔ ” اقوال الحکمة والاداب ”
١٧۔ ”النسخة ” اس کا ذکر رجال النجاشی میں ہے ۔
١٨۔ ”النسخة” عبداللہ بن ابی اویس بن مالک بن ابی عامرالاصبحی نے بیان کیا ہے ۔
١٩۔ ”النسخة” سفیان بن عینیة سے مروی ہے ۔ ٢٠۔ ”النسخة’ ‘ابراہیم بن رجاء الشیبان سے مروی ہے ۔
٢١۔ ”الکتاب ” جعفر بن بشیرالبجلی کے پاس تھی ۔ ٢٢۔ ” تقسم الرویا”
صدائے خلق
میرے آقا ہیں جعفر امام ہدیٰ ، تاجدارِ زماں پرتو ِمصطفٰی ہے عطائے خدا جن کا صادق لقب ،اُن کے صدق وصداقت کی کیا بات ہے اَنْتَ یَاجَعْفَرُفَوْْقَ الْمَدْحِ وَالْمَدْحُ عِنَاء ، اِنَّمَاالْاَشْرَافُ اَرْضُُ وَلَھُمْ اَنْتَ سَمَائ، جَازَحَدُّ الْمَدْحِ مَنْ قَدْ وَلَدَتْہُ الْاَنْبِیَاء اے جعفر !آپ مدح سے بلند ہیںاور مدح سخت ہے، اشراف زمین ہیں اور آپ آسمان ہیں، وہ مدح کی حد سے متجاوز ہیں جنہیں انبیاء نے پیدا کیا۔ مطالب السئول میں علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیںکہ آپ اہلبیت وسادات کے عظیم ترین فرد تھے اور مختلف علوم سے لبریز تھے ۔آپ ہی سے قرآن مجید کے معانی کے چشمے پھوٹتے رہے ہیں۔آپ کے بحر علم سے علوم کے موتی رولے جاتے تھے ،آپ ہی سے علمی عجائب وکمالات کا ظہور وانکشاف ہوا ہے ۔ ص٢٧٣ صواعق المحرقہ میں علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ علما نے آپ سے اس درجہ نقل علوم کیا ہے جس کی کوئی حد نہیں ۔آپ کا آوازئہ علم تمام دیار وامصار میں پھیلا ہوا ہے ۔ آپ افضل واکمل تھے جس بنا پراپنے والد کے خلیفہ ووصی قرار پائے ۔ ص١٢٠ شواہد النبوة میں ملا جامی تحریر فرما ہیں کہ آپ کے علوم کا احاطہ فہم وادراک سے بلند ہے۔ ص١٨٠ وفیات الاعیان میں علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ آپ سادات اہلبیت سے تھے ۔ان کی افضیلت اور ان کا فضل وکرم محتاج بیاں نہیں۔صدق مقال کے باعث آپ کے اسم گرامی کا جزو ”صادق” قرار پایا ہے۔
ج ١ ص ١٠٥ عمر ابن مقدام کا کہنا ہے کہ جب میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو دیکھتا ہوں تو معاََخیال ہوتا ہے کہ یہ جوہر رسالت کی اصل وبنیاد ہیں۔ چمک رہا ہے نبی کے گھر میں چراغ بن کر امام جعفر بلندیوں سے بلندتر ہے یقین جانو مقام ِجعفر ذکا وادراک ،فہم ودانش کاپالیاہے خزانہ اٰس نے ملے گی اُس کو غنا کی دولت ،پیاہے جس نے بھی جام ِجعفر
خدا سے مانگو صراط ِالفت ،نبی کی اولاد کی محبت شہید ِکربل کے راستوں پر چلے چلو ہے پیام ِجعفر میں نوریوں کے خضر جلو میں جوسوئے خلد ِبریں چلوں گا تو اہل ِمحشر کہیں گے دیکھو وہ جا رہا ہے غلام ِجعفر ثاقب المناقب کے مطابق ابو ہاشم اسماعیل بن محمدالحمیری کہتے ہیں؛
تَجَعْفَرتُ باِسْمِ اللّٰہ ، اللّٰہُ اکْبَر وَاَیْقَنَتْ اِنَّ اللّٰہَ یَعْفُوْ وَیَغْفَر میں بنام خدا جعفری ہو گیااور اللہ بزرگ وبرتر ہے اورمجھے یقین ہے کہ خدا معاف کرتا اور بخش دیتا ہے۔ وَدَنَتْ بدِیْن غَیْرَمَا کُنْتَ دَائِنَا بہِ وَنھَا نِیْ سَیّدُ الْنَاسِ جَعْفَر اور اب میں نے اس دین کو اپنا لیا ہے کہ جس کے غیر کو میں دین سمجھتا تھا اور مجھے لوگوں کے سردار وآقا جناب جعفر صادق نے منع کیا ہے۔
فَقُلْتُ فَھَبْنِْ قَدْ تَھُوْدَتْ برھةْ وَِالْافْدِیْنْ دِینِ منْ یَنْتَصَر پس میں نے کہا کہ فرض کیجئے کہ میں ایک زمانہ تک یہودی تھاور نہ میرا دین نصاریٰ والا تھا ۔ فَاِنّْ اِلَی الْرَّحْمٰن مِنْ ذَاکَ تَائِب ٍ وَاِنّْ قْدْاَسْلَمْتُ وَاللّٰہُ اکْبَرْ اب میں خدائے رحمان کی بارگاہ میں توبہ کرتے اسلام لاتا ہوں اور خدا ہی بزرگ وبرتر ہے ۔ جعفر ابن محمدمیںعبدالعزیزسیدالاہل رقمطراز ہیں کہ،” جعفر ابن محمد اہل اسلام کے وہ قابل فخر امام ہیں جو اب بھی زندہ ہیں اور ہر آنے والے دور میں ان کی ایک نئی آواز گونجتی ہے جس سے اہل زہدوتقویٰ پرہیزگاری کااور اہل علم وفضل علم وکمال کا درس لیتے ہیں۔آپ کی آواز پریشان حال کو سکون کی راہ دکھلاتی ہے ،مجاہد کو جوش دلاتی ہے ، تاریکیوں میں نورانیت پھیلاتی ہے ،قصر عدالت کی بنیادیں قائم کرکے مسلمانوں کو یہ پیام دیتی ہے کہ اب بھی ایک نقطہ پر جمع ہو جائو ۔دیکھو !خدا بھی ایک ہے اور نبی بھی ایک ہے۔”
صاحب تذکرة الائولیاء فریدالدین عطارنیشاپوری کہتے ہیں،”حضرت ابومحمدامام جعفر صادق ،ملت مصطفوی کے سلطان،حجت نبوی کی برہان،صدق وتحقیق کے عالم ، اولیاء کے دلوں کا مرکز، جگرگوشہء علی ووارث نبی ۖہیں۔” حضرت فرید الدین عطار نے اپنی معرکة الآراتصنیف ”تذکرة الائولیائ”کی ابتداحضرت امام جعفر صادق کے نورانی تذکرئہ مبارک سے کی ہے ۔
تاریخ ِعرب میں جسٹس امیر علی لکھتے ہیں،”اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دور میں علم کا انتشار(فروغ) اس حد تک ہوا کہ انسانی فکر کا جمود ختم ہو گیا اور فلسفی مسائل ہر محفل میں زیر بحث آنے لگے ۔ لیکن یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ اس پوری علمی تحریک کے قائداکبر ،علی ابن ابی طالب کے فرزند امام صادق تھے جن کی فکر وسیع،نظر عمیق اور جنہیں ہر علم میں کامل دستگاہ حاصل تھی ۔حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اسلام کے تمام مکاتب فکر کے موسس اور بانی کی حیثیت رکھتے ہیں۔آپ کی مجلس بحث ودرس میں صرف وہی حضرات نہ آتے تھے جو بعد میں امام مذہب بن گئے بلکہ تمام اطراف سے بڑے بڑے فلاسفر استفادہ کرنے کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ ”
رثائے صادق
سیدناامام جعفر صادق کی شہادت کے بعد آپ کے جسد اقدس کولے کرجنت البقیع کی جانب روانہ ہوئے تو شاعر اہلبیت ابوہریرة عجلی نے مرثیہ کہا؛
اَقُوْلُ وَ قَدْ رَاحُوْا بِہ یَحْمِلُوْنَہ عَلیٰ کَاھِلٍ مَنْ حَامِلَیْہِ وَعَاتِقٍ
اَتَدْرُوْنَ مَاذَا تَحْمِلْوْنَ اِلَی الْثَّریٰ ثَبِیْراً ثَوَیٰ مَنْ رَأسَ عَلِیّاً شَاھِقٍ
غَدَاة حَتَّی الْحَاثُوْنَ فَوْقَ ضَریْحُہ وَ اوْلَیٰ کَانَ فَوْقَ الْمَفَارِقٍ
میں نے کہا ،جب وہ انہیں کندھوں پر اٹھا کر لے چلے تھے ۔کیا تم جانتے ہو کہ کسے قبر کی جانب لے جا رہے ہو،وہ ثبیر پہاڑ ہے جو بلندی سے گرا ہے۔
جس صبح ان کی قبر پر مٹی ڈال رہے تھے حالانکہ وہ سروں پرڈالنے کے زیادہ لائق تھی ۔
صادق ِبے ریا،جعفر ِباوفا،من کی دنیا کا لاریب سلطان ہے نور ِخیر النساء ،پرتو ِمصطفٰی ۖ،علم ِحیدر کا پورا گلستان ہے
رازداں ہے حقیقت کی ہربات کا ،واقف ِعلم ِباطن ،امام ِہدیٰ ایسا عالم ہے باقر کا لخت ِجگر ،جس کا شاگرد دنیا میں نعمان ہے
جس کے خدام کو پیشوائی ملی ،غم کے زنداں سے سب کورہائی ملی ہر خطاکار کوپارسائی ملی ،سارے عالم پہ سید کا احسان ہے
مل گئی جس کو جعفر کی نوری گلی ،بے گماں وہ نہ جائے گا خالی کبھی جوبھی آئے گا پائے گافیض ِعلی ،میرااعلان ہے میرااعلان ہے
دے رہاہوں صداپرصدااے خضر،ہوعطاسیداایک جام ِنظر خیر ہواے سخی تیرے دربارکی ،تو ہی میرا خضر میراپردھان ہے
علم وادب پرور امام جعفر صادق کی مسند ِتدریس پہ کندہ تھا ؛
لَیْسَ الْیَتِیْمَ قَدْمَاتَ وَالِدِہ اِنَّ الْیَتِیْمَ یَتِیْمُ الْعِلْمِ وَالْاَدَبِ
یتیم وہ نہیںجس کا باپ فوت ہو جائے بلکہ یتیم وہ ہے جو علم وادب سے بے بہرہ ہے
تحریر : ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
darbarshareef@gmail.com