تحریر : ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
١۔ امام جعفرصادق نے فرمایا؛؛” ان میں حکم کا علم و فہم اور سخاوت ہے۔ ان امور کی معرفت ہے جن کے لوگ محتاج ہیں۔ وہ ایسے امورِ دین ہیں جن میں لوگ اختلاف کیا کرتے ہیں۔ اس میں حسن ِ خلق ہے اور حسن ِ جواز۔””وہ اللہ عزو جل کے ابواب میں سے ایک باب اور دروزاہ ہیں۔”٢۔ مامون عباسی نے آپ کی تعریف میں کہا؛” وہ شب زندہ دار بزرگ ہیں ۔ جن کو عبادت گزاری نے نحیف کر دیا ہے۔ جیسے وہ پرانی مشک ہو گئے ہیں۔ سجدوں نے ان کے چہرے اور ناک کو زخمی کر دیا ہے۔”٣۔ عیسی بن جعفر نے ہارون الرشید کو لکھا تھاکہ موسی بن جعفر کا معاملہ طویل ہو گیا ہے وہ کافی عرصے سے میری قید میں ہیں۔
میں ان کے حالات کی نگرانی کی، ان پر جاسوس مقرر کیے۔ اس طویل مدت میں میں نے دیکھا کہ وہ عبادت سے تھکے نہیں۔ میں نے ایک آدمی مقرر کیا کہ وہ ان کی دعاں پر نظر رکھے۔ پتہ چلا کہ آپ نے کبھی تم کو یا مجھے بددعا نہیں دی۔ نہ ہی کبھی ہمارا برا ذکر کیا۔ وہ اپنی مغفرت اور اللہ کی رحمت کے علاوہ کوئی دعا نہیں مانگتے۔تم کسی کو بھیج دو جو آپ کو اپنی تحویل میں لے لے ورنہ میں ان کو رہا کردوں گا۔ میں ان کو قید میں رکھنا تکلیف دہ اور باعث ضرر سمجھتا ہوں۔
٤۔ ابو علی خلال ( شیخ حنبل) کہتے ہیں کہ مجھے جب کسی معاملے میں رنج و غم ہوا تو میں نے موسی بن جعفر کی قبر کا ارادہ کیا اور ان سے متوسل ہوا۔ ہمیشہ اللہ تعالی نے اس کام کو جس طرح میں چاہتا تھا سہل و آسان کر دیا۔٥۔ شافعی کہتے ہیں کہ ”موسی بن جعفر کی قبر مجر ب تریاق ہے۔”( یعنی حاجات بر آتی ہیں)٦۔ ابو حاتم کہتے ہیں کہ آپ ثقہ اور بہت سچے تھے۔ مسلمانوں کے ائمہ میں سے ایک امام اور رہنما ہیں۔٧۔ عبد الرحمن ابن ِ جوزی کہتے ہیںکہ آپ کو آپ کی عبادت، اجتہاد، راتوں میں قیام کی وجہ سے عبد صالح کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ آپ کریم وحلیم تھے۔
٨۔ خطیب بغدادی کہتے ہیںکہ آپ سخی اور کریم تھے۔جب آپ سنتے کہ کوئی شخص آپ کو اذیت پہنچاتا ہے تو آپ اس کو ہزار دینار کی تھیلی بھیجتے۔ آپ دو سو، تین سو اور چار سو دینا کی تھیلیاں تیار کرواتے اور ان کو مدینے کے لوگوں میں تقسیم کرتے۔موسی بن جعفر کی تھیلیاں ضرب المثل تھیں جب کسی انسان کے پاس آپ کی تھیلی آتی تو وہ غنی اور تو نگر ہو جاتا۔ ٩۔ علی بن محمد احمد مالکی ابن صباغ کہتے ہیں کہ آپ کے مناقب ، آپ کی واضح کرامات، آپ کے فضائل اور روشن صفات اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ شرافت اور خوبیوں اور اوج کی بلندیوں پر فائز تھے۔ آپ کے سامنے سرداریوںکے کندھے جھکے ہوئے تھے۔ آپ کو مجدو بزرگی کے غنائم میں حاکم مقرر کیا گیا جن میں منتخب غنائم کو آپ نے اختیار کیا۔
٠١۔ یوسف بن قزاغلی سبط ِجوزی کا کہنا ہے کہ موسی بن جعفر محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علہیم السلام کا لقب کاظم، مامون، طیب اور سید ہے۔ آپ کی کنیت ابو الحسن ہے۔ عبادت و اجہتاد اور ساری ساری رات عبادت کے لیے قیام کرنے کی وجہ سے آپکو لوگ عبد ِ صالح کہہ کر پکارتے۔موسی بن جعفر ، جواد اور کریم تھے۔ آپ کو کاظم اس لیے کہا جاتا کہ جب آپ کو کسی سے کوئی تکلیف پہنچتی تو آپ اس کو مال بھیجتے ۔١١۔ کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی کہتے ہیں کہ امام بڑی قدر و منزلت کے مالک، عظیم بزرگ ،نیکیوں میں بہت جدو جہد کرنے والے، عبادت کے لیے مشہور، اطاعتوں پر برقرار، کرامتوں کے لیے معروف، ساری ساری رات سجدوں میں گزارنے والے اور نماز کے لیے قیام کرنے والے تھے۔
آپ دن صدقہ اور روزے میں گزارتے۔ بے مثال حلم و بردباری کے مالک تھے۔ اپنے آپ پر زیادتی کرنیوالوں سے چشم پوشی فرماتے اسی بنا پر آپ کو کاظم کے لقب سے پکارا جاتا۔ جو برائی کرتا اس کو احسان اور نیکی سے بدلہ دیتے۔ زیادتی کرنے والے کے جواب میں اس کو معاف کر دیتے۔عبادت کی کثرت کی وجہ سے عبد صالح کے لقب سے پکارے جاتے۔عراق میں آپ ” باب الحوائج الی اللہ ” کے نام سے مشہور ہیں۔ کیونکہ آپ کے ذریعے اللہ تعالی کی طرف متوسل ہونے والوں کے مطالب بر آتے ہیں۔آپ کی کرامات عقل کو حیران کر دیتی ہیں اور ثابت کر تی ہیں کہ اللہ تعالی کے یہاں آپ کا ایسا سچا مقام ہے جس میں کمی بیشی کا سوال نہیں۔٢١۔ احمد بن یوسف د مشقی کرمانی کاکہناہے کہ موسی و ہ امام ہیں جو بڑی قدر و منزلت والے ہیں۔ منفرد شخصیت کے مالک اور حجت ِ خدا ہیں۔
اپنی رات بیدار رہ کر قیام میں گزارنے والے اور اپنے دن روزے میں کاٹنے والے ہیں۔ بہت زیادہ حلیم و بردبار ہیں۔ زیادتی کرنے والوں سے چشم پوشی کرنے کی وجہ سے آپ کا نام کاظم ہو گیا۔ آپ اہل ِعراق میں “باب الحوائج”کے لقب سے مشہور ہیں۔ ان سے متوسل ہونے والے کی حاجت ہمیشہ پوری ہوئی ان کی کرامات آشکار اور مناقب واضح ہیں۔ آپ نے شرافت کی اوج پائی اور خوبیوں کی رفعت پا کر اعلی مقام تک پہنچے۔٣١۔ محمد بن احمد ذہبی کہتے ہیںکہ موسی اعلی ترین حکما اور عقلا میں سے تھے۔پاکیزہ عابدو زاہد تھے۔ آپ کا مشہد و مرقد بغداد میں مشہور ہے۔ ٥٥ سال کی عمر میں آپ کی وفات ٣٨١ھ میں ہوئی۔٤١۔ ابن ساعی کہتے ہیںکہ امام کاظم عظیم الشان اور صاحب ِافتخار تھے۔ کثرت سے نماز تہجد پڑھنے والے، نیکیوں میں حد سے زیادہ کوشاں، آپ کی کرامات کی گواہی دی گئی ہے۔ آپ عبادت کے لیے مشہور تھے۔ مسلسل اطاعتوں پر برقرار رہنے والے تھے۔ ساری ساری رات سجدے اور قیام میں گزارنے والے اور دن صدقہ دینے اور روزہ رکھنے میں گزارنے والے تھے۔
٥١۔ مومن شبلنجی کا کہنا ہے کہ موسی کاظم اپنے اہل زمانہ میں سب سے زیادہ عابد، عالم، سخی اور کریم النفس تھے۔ آنجنابۖ اہل ِ مدینہ کے فقراکی دیکھ بھال کرتے۔ رات کو ان کے گھروں میں درہم و دنیار اور اجناس پہنچاتے۔ خود ان حاجت مندوں کو یہ خبر بھی نہ ہوتی کہ یہ کچھ ان کو کس نے پہنچایا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کو پتہ چلا کہ ہمارے ساتھ احسان کرنے والا کون تھا؟ آپ اکثر یہ دعا مانگتے۔اللھم انی اسئلک الراح عند الموت و العفوعند الحساب، خدایا!موت کے وقت راحت و آرام اور حساب کے وقت تجھ سے عفو اور بخشش کا سوال کرتا ہوں۔
٦١۔ عبد الوہاب شعرانی کہتے ہیںکہ موسی بارہ اماموں میں سے ایک جو جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب کے فرزند ہیں۔ آپ عبادت کی کثرت، اجتہاد اور ساری رات عبادت میں قیام کی وجہ سے عبد صالح کے نام سے پکارے جاتے۔جب آپ کو کسی شخص کے بارے میں پتہ چلتا کہ وہ آپ کو اذیت اور تکلیف پہنچاتا ہے تو آپ اس کو مال بھیجتے۔٧١۔ عبد اللہ شہراوی شافعی کہتے ہیںکہ آپ بزرگوں اور سخی لوگوں میں سے تھے۔ آپ کے والد حضرت جعفر آپ سے بہت محبت اور پیار کرتے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو موسی سے کتنی محبت ہے ؟ تو فرمایا کہ میں پسند کرتا کہ اس کے علاوہ میرا کوئی بیٹا نہ ہوتا تاکہ مجھے اس سے جو محبت ہے اس میں کوئی شریک نہ ہوتا۔
٨١۔ محمد خواجہ بخاری کہتے ہیںکہ ابوالحسن موسی کاظم بن جعفر صادق ائمہ اہل ِبیت میں سے ہیں۔آپ صالح، عابد، جواد، سخی اور بڑی قدر و منزلت والے ہیں۔ آپ کثیر علم کے مالک تھے۔ آپ کو عبد صالح کے نام سے پکارا جاتا ۔ ہر روز سورج نکلنے سے لے کر زوال تک اللہ کے لیے ایک طویل سجدہ کرتے۔ جس شخص نے آپ کو اذیت اور تکلیف پہنچائی تھی اس کو آپ نے ایک ہزار دینار کی تھیلی بھیجی۔ مہدی بن منصور عباسی نے مدینہ سے بغداد بلا کر قیدکر دیا۔ مہدی نے خواب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ، کو یہ کہتے سنا کہ اے مہدی ! فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسد وا ف الارض و تقطعوا ارحامکم فا طلقہ،یعنی کیا قریب ہے کہ اگر تم کو والی اور حاکم بنا دیا جائے تو تم زمین میں فساد کرو گے اور قطع رحمی کرو گے چنانچہ اس نے آپ کو چھوڑ دیا۔
٩١۔ عبد اللہ بن اسد یافعی کہتے ہیںکہ آپ صالح، عابد، جواد، حلیم الطبع اور بڑی قدر و منزلت والے تھے۔ آپ بارہ اماموں میں سے ایک تھے جو امامیہ کے اعتقاد کے مطابق معصوم ہیںعبادات اور اجہتاد کی بنا پر آپ کو عبد صالح کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔آپ سخی اور کریم تھے۔ آپ کو پتہ چلتا کہ کوئی شخص آپ کو اذیت دیتا ہے تو اس کو ایک ہزار دینار کی تھیلی بھیجتے۔٠٢۔ محمد امین سویدی کہتے ہیںکہ امام بہت قدر و منزلت والے، کثیر الخیر انسان تھے ساری رات کھڑے ہو کر عبادت کرتے۔دن کو روزے رکھتے، اپنے آپ سے زیادتی کرنے والوں سے چشم پوشی کرتے۔ اسی لیے آپ کا لقب کاظم پڑ گیا ۔ آپ کی واضح کرامات ہیں۔ آپ کے مناقب ایسے ہیں کہ یہاں ان کا ذکر سما نہیں کر سکتا۔
١٢۔ محمود بن وہیب قراغولی بغدادی حنفی کہتے ہیں کہ آپ موسی بن جعفر صادق بن محمد باقر بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن علی بن ابی طالب ہیں۔ آپ کی کنیت ابوالحسن ہے۔ آپ کے چار القاب کاظم، صابر ،صالح اور امین جن میں زیادہ مشہور لقب کاظم ہے۔آپ میانہ قد اور گندم گوں رنگ کے تھے۔ آپ اپنے والد کے علم و معرفت، کمال و فضل کے وارث تھے رضی اللہ عنہ۔ غیظ و غصے کو پی جانے والے، بہت زیادہ چشم پوشی کرنے والے اور حلم و بردباری کی وجہ سے آپ کا نام “کاظم “پڑ گیا۔اہل عراق میں آپ “باب قضا الحوائج عند اللہ “کے لقب سے مشہور ہیں۔ اپنے زمانے میں سب لوگوں سے زیادہ عابد، عالم اور سخی تھے۔٢٢۔ علی جلال حسینی کہتے ہیںکہ آپ فقہ، دین عبادات، حلم اور صبر کے اتنے جامع تھے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔
٣٢۔ محمد امین غالب الطول کہتے ہیں کہ علوی ایک عظیم القدر شخص یعنی امام موسی کاظم کی اقتدا کرتے تھے۔ آپ تقوی اور کثرتِ عبادت کے لیے مشہور تھے۔ حتی کہ مسلمانوں نے آپ کو عبد صالح پکارنا شروع کر دیا۔ کبھی رجل صالح بھی کہتے یہ تشبیہ ان سے ہوتی جن کا قرآن میں موسی بن عمران کے ساتھی کے طور پر ذکر ہے۔امام کاظم کریم اور سخی تھے۔٤٢۔ یوسف اسماعیل نبہانی کہتے ہیںکہ موسی کاظم اکابر ائمہ، ہمارے سادات اہل بیت کرام اور ہادیان ِ اسلام رضی اللہ علہیم اجمعین میں سے ایک تھے۔خداوند ِعالم ہم کو ان اہل ِبیت کی برکات سے مستفید فرمائے اور ان کی محبت اور ان کے جداعظم کی محبت پر ہم کو موت دے۔
٥٢۔ ڈاکٹرذ کی مبارک کہتے ہیںکہ موسی بن جعفر سادات ِبنی ہاشم میں سے سیدو سردار تھے۔ علم اور دین میں سب سے آگے تھے۔
٦٢۔ ڈاکٹر عبد الجبار جو مرد کہتے ہیںکہ امام کاظم موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہیں۔ زہد و تقوی اور اخلاق کی عمدگی اور نرمی سے آپکی زندگی بھری پڑی ہے۔آپ کو کاظم کا لقب اس لیے ملا کہ آپ ہر اس شخص سے حسن ِ سلوک کرتے جو آپ کے ساتھ برا سلوک کرتا۔
٧٢۔ ڈاکٹر محمد یوسف کہتے ہیںکہ ہم یہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ پہلا شخص جس نے فقہ میں کتاب لکھی وہ امام موسی کاظم ہیں۔ آپ کی وفات (بغداد کے ) قید خانے میں٣٨١ھ میں ہوئی تھی۔ آپ سے “حلال و حرام” کے عنوان سے جن مسائل کو آپ سے دریافت کیا گیا تھا یہ ان کے جوابات تھے جو آپ نے تحریر فرمائے تھے۔
تحریر : ڈاکٹر سید علی عباس شاہ