انسان ابتدائے افرینش سے ہی کسی نہ کسی طور پر ہدایت ربانی کا محتاج رہا ہے۔
خطا و نسیان کی فطری کم زوری کے پیش نظر اللہ رب العالمین نے انسانیت کی راہ نمائی کے لیے اپنے انبیاء و رسلؑ مبعوث فرمائے۔ جنہوں نے مختلف اقوام و ملل اور ممالک و علاقوں میں آکر مریضان شرک و ضلالت کو توحید ربانی کے چشمۂ صافی سے سیراب کرا کر حیات جاودانی سے ہم کنار کرنے کی سعی و جہد کی۔ تاہم ہر نبی و رسولؐ کی دعوت محدود اثرات کی حامل تھی۔ اس پر ستم یہ کہ اکثر لوگوں نے نہ صرف اپنے انبیاء کی تکذیب کی، بل کہ انہیں ناحق قتل تک کر ڈالا۔
اسی طرح صدیوں کا سفر جاری تھا کہ انبیاء کی تعلیمات مسخ کردی گئیں اور سرزمین عرب بالخصوص شرک و بت پرستی کا گڑھ بن گئی‘ اور اللہ کے بندے اپنے معبود حقیقی کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ اصنام کی پوجا پاٹ میں مصروف ہوگئے اور بیت اللہ جسے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے فرزند سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ علیہم السلام نے خالص اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا 360 معبودان باطلہ کی آماج گاہ بن چکا تھا۔ ہر طرف کفر و شرک کی آندھیاں چل رہی تھیں۔
کہیں ستاروں کی پوجا ہو رہی تھی تو کہیں آتش پرستی سے قلوب و اذہان بھسم کیے جارہے تھے۔ گویا انسانیت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی کہ اللہ کی رحمت کو جوش آیا اور مکہ مکرمہ کی اسی سرزمین سے کہ جہاں اللہ کا گھر اس کے خلیلؑ نے تعمیر کیا تھا اور دعا کی تھی، مفہوم: ’’ اے ہمارے رب ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیج جو ان کے سامنے تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے۔ بے شک تو غلبے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
اسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بشارت دی۔ مفہوم: ’’ اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اے میری قوم بنی اسرائیل میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی بھی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی خوش خبری سنانے والا ہوں‘ جن کا نام احمد ہے‘ پر جب وہ ان کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔‘‘
اسی طرح دیگر انبیائے کرام ؑ نے بھی بشارتیں دی تھیں کہ ایک رسول رحمت آنے والے ہیں تو وہ ابر رحمت قریش کے سردار عبدالمطلب کے گھر عبداللہ کی بیوہ آمنہ کے بطن سے ہویدا ہوا اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیدائش پر رب کائنات نے یہ معجزہ دکھایا کہ نور کی تجلیات و عرفان سے شام کے محلات روشن ہوگئے اور بیت اللہ میں رکھے گئے بت سرنگوں ہوگئے اور آتش کدۂ ایران جو صدیوں سے روشن چلا آ رہا تھا بجھ گیا اور پوری کائنات ارضی کو یہ پیغام ربانی دیا گیا کہ اب وہ ہستی کائنات میں تشریف لاچکی جو ہر قسم کے شرک و ضلالت کو اپنے پائے استحقار تلے روندنے والی ہے۔
عبدالمطلب کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ وہ اپنے حسین و جمیل پوتے کو گود میں لیے بیت اللہ میں آئے اور ولادت کا اعلان عام کیا۔ لوگوں نے جب پوچھا کہ بچے کا نام کیا رکھا ہے تو عبدالمطلب نے برجستہ کہا محمّد (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ سب لوگ حیران ہوگئے کہ یہ نام عرب میں مانوس نہیں تھا۔ عبدالمطلب نے کہا کہ اس نام کے معنی بہت زیادہ تعریف کیے گئے ہیں۔ یہ نام اللہ ہی نے رکھوایا کہ تاقیامت جب تک اللہ کا نام بلند ہوگا۔ اس کے محبوبؐ کا نام بھی بلند ہوتا رہے گا۔
اللہ رب العالین نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ( اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) ’’ ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ یعنی جہاں جہاں تک میں رب العالمین ہوں، وہاں تک میرا پیارا رحمۃ للعالمین ہے۔ نبی مکرمؐؐ کی پیدائش کی بشارت عالم ارواح میں تمام انبیائؑ سے عہد لینے کی صورت میں بھی واضح کردی گئی ہے۔
جیسا کہ قرآن مجید میں مالک کائنات ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: ’’ اللہ تعالیٰ نے (عالم ارواح میں) نبیوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائیں (یعنی تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے) تو تمہیں ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا ضروری ہے۔ کیا تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا ہاں ہمیں اقرار ہے۔ فرمایا تو اب تم گواہ رہو اور خود میں تمہارے ساتھ گواہ ہوں پس اس کے بعد جو بھی پلٹ جائیں وہ یقینا پورے نافرمان ہیں۔‘‘ (سورۃ آل عمران )
یعنی سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک تمام نبیوں سے روز اول ہی اللہ تعالیٰ نے یہ قول و قرار اور وعدہ لے لیا تھا کہ اگر میں اپنے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے زمانے میں بھیجوں تو تم پر فرض ہوگا کہ تم ان پر ایمان لاؤ اور ان کی مدد کرو اگر تم اس کا اقرار کرتے ہو تو تمہیں نبی اور رسول بنا کر بھیجیں گے اور کتا ب و حکمت بھی عطا کریں گے‘ تو تمام انبیاء و رسلؑ نے اس کا اقرار کیا اور جب وہ انبیاء دنیا میں مبعوث ہوئے تو انہوں نے اپنی امتوں کو یہ نصیحت فرمائی کہ اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پاؤ تو ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا۔ گویا تمام انبیاء نے رسالت محمدیؐ کا اقرار کیا اور ان کا امتی ہونے کی خواہش ظاہر کی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہیں۔ یہی نہیں بل کہ آپؐ کے اندر اللہ تعالیٰ نے تمام اوصاف حمیدہ اتمام و اکمال کے ساتھ پیدا فرما دیے تھے‘ آپؐ محمّد ہیں‘ محمود‘ احمد ‘ بشیر و نذیر‘ حبیب و حلیم‘ رشید و عادل‘ خازن و قاسم‘ سید الخلق‘ امام الانبیاء‘ سید المرسلین‘ شفیق المذنبین‘ رحمۃللعالمین بھی ہیں۔ آپؐ صادق و مصدوق اور امین بھی ہیں۔ طیب و طاہر‘ حامی و حاشر و عاقب ‘ مدثر و مزمل بھی ہیں۔ آپؐ کی عظمت و رفعت پوری کائنات میں افضل و اعلیٰ ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا، مفہوم: ’’ اور ہم نے تیرا ذکر بلند کردیا۔‘‘
چوں کہ آپؐ خاتم النبیین بن کر آئے لہٰذا آپؐ کی ذات بابرکات میں جمیع اوصاف و کمال مجتمع کر دیے گئے تھے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کو اللہ نے حسین و جمیل پیدا کیا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو معجزہ زندگی عطا فرمایا اور موسیٰ علیہ السلام کو یدبیضاء کا معجزہ یعنی جب وہ بغل میں ہاتھ ڈالتے تو وہ چمکتا ہوا نکلتا تھا۔ ان تمام انبیاء و رسلؑ میں جو اوصاف و کمالات موجود تھے وہ سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات میں اکمل و اجمل پیدا کر دیے گئے تھے۔
آپؐ کی والدہ ماجدہ آمنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی احمد رکھا۔ بعد ازاں عرب کے رواج کے مطابق آپؐ کو پرورش کے لیے دائی حلیمہ سعدیہ کے حوالے کر دیا گیا۔امام کائناتؐ کی پاکیزہ زندگی کا مشاہدہ و مطالعہ کیا جائے تو کسی بدترین دشمن کو بھی آپؐ کی سیرت مبارکہ میں زندگی کے کسی بھی موڑ پر کہیں بھی انگشت نمائی کی جرات نہیں ہوسکتی۔ آپؐ صدق و صفا کے پیکر‘ علم و تواضع کے خوگر‘ نرم گفتار‘ ملنسار‘ خلیق‘ باحیا اور مصائب و آلام پر صبر کا کوہ گراں ثابت ہوئے۔
کفار مکہ نے ہر طریقے سے آپؐ کو آپ کے مشن سے باز رکھنے کے جتن کرلیے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے استقامت میں ذرّہ برابر بھی جنبش نہیں آئی بل کہ آپؐ نے اپنے چچا ابوطالب سے فرمایا کہ اگر یہ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند لاکر رکھ دیں تب بھی میں اپنے مشن سے باز آنے والا نہیں۔
یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کو ڈھائی سال تک شعب ابی طالب میں محصور رہنا پڑا اور اس دوران ہر طرح کی مصیبتیں جھیلیں مگر اف نہ کی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ ہجرت کا حکم ہوا اور اللہ کا کلمہ بلند ہو کر رہا اور رحمت کائنات ؐ نے انسانی تاریخ کی سب سے مثالی ریاست قائم کرکے دکھا دی جو رہتی دنیا تک کے لیے منارۂ نور ہے۔
غلاموں‘ یتیموں‘ بیواؤں اور مسکینوں‘ مہمانوں حتیٰ کہ جان کے دشمنوں کے ساتھ بھی صلۂ رحمی‘ عفو و درگزر اور روا داری جیسے اوصاف حمیدہ کے ذریعے برتاؤ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں بل کہ ایسا حسن سلوک وہی کر سکتا ہے جس میں اللہ نے صبر و استقامت اور رحمت و شفقت کوٹ کوٹ کر بھردی ہو۔رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں کائنات میں توحید ربانی کا علم بند کیا اور بیت اللہ کو معبودان باطلہ سے پاک کرکے قیامت تک کے لیے خالص اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص کردیا۔ وہیں اپنی سیرت مبارکہ کے ایسے مقدس و پاکیزہ گہرہائے نقوش چھوڑے جو پوری انسانیت کے لیے منبعٔ رشد و ہدایت اور دنیاوی و اخروی فوز و فلاح کے ضامن ہیں۔
ماہ ربیع الاول کی ان ساعتوں میں ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ اپنی پوری زندگی کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالیں گے اور اپنے اخلاق و کردار‘ عقائد و اعمال کی درستی کا اہتمام کرتے ہوئے اسلام کے آفاقی نظریۂ حیات پر عمل پیرا رہ کر دنیا و آخرت کی کام یابیوں اور کام رانیوں سے ہم کنار ہونے کی بھرپور سعی و جہد کریں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین