اسلام آباد: سپریم کورٹ نے دو افراد کے قتل کے جرم میں سزائے موت پانے والے قیدی امداد حسین کی ذہنی حالت جانچنے کے لیے میڈیکل بورڈ کی درخواست منظور کرلی۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے قتل کے ذہنی مریض مجرم امداد حسین کی سزا پر نظرثانی کی درخواست پر سماعت کی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمان نے عدالت کے سامنے مؤقف بیان کیا کہ امداد حسین ذہنی مرض میں مبتلا ہے اور وہ روحانیت کی جانب مائل ہوگیا ہے، اس کی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی گئی ہے لہذٰا امداد حسین کی موت کی سزا کو ختم کیا جائے۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کے مؤقف پر ریمارکس دیئے کہ جب بے گناہ لوگوں کا قتل کیا جاتا ہے تو روحانیت آ ہی جاتی ہے۔ 2002 سے لے کر مجرم کا تمام ریکارڈ متعلقہ جیل سے غائب کردیا گیا ہے، ہم نے امداد حسین کے مرض کے علاج سے انکار نہیں کیا لیکن ہمارے پاس ایسی کوئی ٹھوس شہادت نہیں کہ امداد علی ذہنی مریض ہے، ملک میں جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ بنانے عام سی بات ہے اور ایسا سرٹیفکیٹ 100 روپے میں ہر جگہ مل جاتا ہے، ٹرائل جج کے سامنے امداد علی نے تمام سوالات کے درست جوابات دیئے تھے، لہذا دوبارہ ٹرائل کورٹ میں کیس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اگر کوئی شخص جرم کے بعد ذہنی مریض بن بھی جائے تو اس کی سزا کو مؤخر کیا جاسکتا ہے ختم نہیں کرسکتے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل پنجاب سےمیڈیکل بورڈ کے لیے 10 ماہر ڈاکٹرز کے نام طلب کرکے کیس کی سماعت 16 نومبر تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ امداد حسین کو 2002 میں امام مسجد سمیت دو افراد کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت دی گئی تھی،آئی جی پنجاب اور مجرم کی اہلیہ صوفیہ بانو نے درخواست دائر کی تھی کہ امداد حسین ذہنی مرض میں مبتلا ہے لہذا اس کی سزائے موت کے احکامات پر نظر ثانی کی جائے اور سزا کوختم کیا جائے۔