روپے کی قدر میں تیز رفتار کمی پر وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں بھی اختلافات سامنے آچکے ہیں کیونکہ وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز روپے کی قدر میں کمی کو ملک میں جاری سیاسی بحران کا نتیجہ قرار دیا لیکن اسٹیٹ بینک کے مطابق ایسا بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر میں کمی کے باعث ہوا تھا اور یہ ایک مثبت رجحان ہے۔ دوسری جانب ایکسپریس ٹربیون میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی ادارے پچھلے چند سال سے وفاقی وزارتِ خزانہ سے مسلسل یہ کہتے آرہے ہیں کہ پاکستانی روپے کی خرید و فروخت اس کی ’’اصل قیمت‘‘ کے مطابق ہونی چاہیے جو اِن اداروں کے حساب سے اِس وقت 116 روپے فی ڈالر یا اس سے بھی کچھ زیادہ ہونی چاہیے۔
واضح رہے کہ روپے کی قدر میں غیرمعمولی کمی سے صرف 3 ہفتے قبل ہی آئی ایم ایف کے ڈائریکٹرز نے پاکستان سے کہا تھا کہ انتظامی اقدامات پر انحصار کرنے کے بجائے شرح مبادلہ (ایکسچینج ریٹ) میں لچک پیدا کی جائے تاکہ اس حوالے سے بیرونی عدم توازن کم کیا جاسکے۔ علاوہ ازیں وسط جون 2017 میں آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ ایک ہینڈ آؤٹ میں بتایا گیا تھا کہ ڈالر اور روپے میں مستحکم شرح مبادلہ کے تناظر میں پاکستان میں زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہوئے ہیں یعنی حکومتِ پاکستان نے روپے کی قدر برقرار رکھنے کےلیے ڈالر کی حقیقی مالیت کو داؤ پر لگادیا ہے۔ فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آنے والے دنوں اور مہینوں میں روپے کی قدر مزید کم ہوگی یا اس میں اضافہ ہوگا لیکن ماضی کے تجربات مدنظر رکھے جائیں تو پاکستانی حکومت کے پاس آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے دیئے گئے ’’مشوروں‘‘ پر عمل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں ہوگا۔