پاکستان میں میڈیا کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے لیے تیار کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں صحافیوں کے خلاف سزا کے خوف کے بغیر حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
رپورٹ کے مطابق قتل یا اقدام قتل کے گذشتہ برس نومبر سے اس سال اکتوبر تک کسی ایک ملزم کو بھی سزا نہ ملنا پاکستان میں جڑیں پکڑتے ہوئے اس رجحان کی عکاسی کرتا ہے جس میں صحافیوں پر حملہ کرنے والوں کو استثنیٰ حاصل ہے۔
یہ جائزہ صحافیوں پر حملوں میں ملوث افراد کو حاصل استثنیٰ کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر جو ہر سال دو نومبر کو منایا جاتا ہے جاری کی گئی ہے۔
تاہم اب تک مارے جانے والے سو سے زائد پاکستانی صحافیوں کے مجرموں تک قانون کا ہاتھ آج تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک سال میں بھی اس بابت صورتحال تبدیل نہیں ہوئی ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ کا کہنا ہے کہ کسی کو سزا نہ ملنے کا مطلب ہے کہ پاکستان صحافیوں کو کام کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے میں ناکام ہوا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’صحافیوں پر حملوں میں ملوث افراد کے سزا نہ ملنے سے حوصلے بڑھیں گے کہ وہ یہ حملے جاری رکھیں۔‘
Popular Videos this Hour
یہ رپورٹ جو کہ اپنی قسم کی پہلی رپورٹ بتائی جاتی ہے میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ حملہ آور سزا نہ ملنے سے کتنا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
رپورٹ کے لیے گذشتہ برس کے دوران پانچ قتل اور ایک اقدام قتل کا واقعہ منتخب کیا گیا۔ ان میں پنجاب میں دو صحافیوں کے قتل، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے ایک، ایک جبکہ پنجاب سے ہی ایک اقدام قتل کی کوشش کا واقعہ بھی شامل ہے۔
Lahore Police during T20 Match
خیبر پختونخوا میں صوابی کے صحافی ہارون خان کا کیس اس میں شامل اس لیے نہیں کیا گیا کہ یہ حالیہ دنوں میں ہوا ہے۔
منتخب واقعات
محمد جان سلیمانی، رپورٹر – نشانہ بنا کر قتل – قلات، بلوچستان ۔ 13 جنوری 2017
تیمور عباس، ٹی وی کیمرہ مین ۔ نشانہ بنا کر قتل ۔ کراچی (سندھ) ۔ 15 فروری 2017
بلال سحر، رپورٹر ۔ منکیرا (بھکر) ۔ نشانہ بنا کر قتل ۔ تین مارچ 2017
عبدالرزاق، نامہ نگار ۔ نشانہ بنا کر قتل ۔ قصور (پنجاب) ۔17 مئی 2017
بخشیش الہی، بیورو چیف ۔ نشانہ بنا کر قتل ۔ ہری پور (کے پی) ۔ 11 جون 2017
رانا تنویر ۔ رپورٹر ۔ اقدام قتل ۔ لاہور (پنجاب) ۔ نو جون 2017
ایف آئی آر جو درج ہوئیں ۔ 100 فیصد
ایک واقعے میں دو ایف آئی آر درج ہوئیں
سزائیں ۔ صفر
چالان پیش ہوئے ۔ تین مقدمات میں ۔ پچاس فیصد
چار واقعات میں ملزمان گرفتار ہوئے ۔ 57 فیصد
کہانیاں بیان کرنے والوں کی کتنی کہانیاں ۔ کوئی فالو اپ نہیں ہوا
اگرچہ یہ حملے اور ہلاکتیں ان کے صحافتی کام کی وجہ سے ہوئے لیکن ان چھ واقعات میں سے کسی ایک میں بھی میڈیا ہاؤس یا ریاست نے انصاف کی جانب پہلا قدم یعنی ایف آئی درج نہیں کروائی۔
تمام چھ واقعات میں ہلاک یا بچ جانے والے صحافیوں کے رشتہ داروں نے پولیس کے پاس مقدمہ درج کروایا۔ رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں پولیس تحقیقات ناکافی ثابت ہوئی ہیں۔
ان چھ میں سے پانچ مقدمات تاحال حل نہیں ہوئے ہیں۔ ایک واقعے میں پنجاب پولیس نے اطلاعات کے مطابق ’ایک ملزم کو مقابلے میں ہلاک‘ کرنے کا دعویٰ کیا۔ یہ اے آر وائی نیوز کے نامہ نگار عبدالرازق کا مقدمہ تھا جنہیں قصور میں مئی 17، 2017 کو راہزنوں نے ہلاک کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق کئی میڈیا ہاؤسز نے بھی اپنے صحافیوں پر حملوں کو ہلکا لیا ہے۔ لاہور کے صحافی رانا تنویر نے جو جون 2017 میں ہونے والے جان لیوا حملے میں بچ گئے تھے اپنی کہانی فریڈم نیٹ ورک کو ای میل کے ذریعے بتائی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حملے کے بعد میں نے ہسپتال جانے سے قبل اپنے ایڈیٹر اور ایگزیکٹیو ایڈیٹر کو ٹیکسٹ پیغام بھیجا۔ میرے ایگزیکٹتو ایڈیٹر نے جواب دیا لیکن ایڈیٹر نے جواب نہیں دیا۔ سوشل میڈیا پر نظر انداز کیے جانے کے شور کے بعد تیسرے روز میرے ایگزیکٹو ایڈیٹر نے مجھ سے ملاقات کی اور میری مالک سے بات کروائی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انھوں نے مجھے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی لیکن 20 روز کے بعد تنخواہ بند کر دی۔ اگلے ماہ مجھے ایک چوتھائی تنخواہ ملی۔ پھر میں نے اپنا استعفیٰ بھیج دیا اور پراویڈنٹ فنڈ کا مطالبہ کیا جو آج تک نہیں ملا۔‘
رپورٹ کے مطابق پاکستانی میڈیا میں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ وہ تحقیقات اور عدالتی سماعت کی رپورٹنگ نہیں کرتا ہے۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک کے مطابق ’میڈیا اگرچے تمام واقعات میں نہیں لیکن صحافیوں کے قتل کے کئی واقعات کی رپورٹنگ کرتا ہے لیکن ان واقعات کا فالو اپ یعنی آگے چل کر مزید کہانیاں نہیں کی جاتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ حکام پر دباؤ نہیں بنتا کہ وہ تحقیقات کریں اور متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو انصاف فراہم کرسکیں۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ مسئلہ عالمی سطح پر بھی ہے لیکن پاکستان اس سے مستثنی نہیں ہے۔ ’کوئی ایسا واقعہ نہیں جس میں میڈیا نے صحافی کے قتل کی تحقیقات کی ہوں یا اس کی سماعت کی کوریج ہی کی ہو۔‘
پاکستان میں ہر حکومت نے زبانی حد تک تو میڈیا کی آزادی کی باتیں بہت کی ہیں لیکن صحافیوں پر حملوں میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کبھی زیادہ سنجیدگی نہیں دکھائی۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے نیا قانون جلد پارلیمان میں لے کر آئے گی جس سے حالات میں بہتری آئے گی۔
حکومت پاکستان کے کردار کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کا رکن ہونے کی وجہ سے اسے ہر سال یونیسکو کو صحافی کے قتل کے واقعات کی تحقیقات میں ’پیش رفت‘ سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔
پاکستان نے گذشتہ تین برسوں میں ایسی کوئی پیش رفت سے یونیسکو کو آگاہ نہیں کیا ہے۔ یہ صورتحال حکومت کی جانب سے اس عزم کے اظہار کے باوجود ہے کہ وہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کرے گی۔
رپورٹ کے آخر میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ وفاقی و صوبائی سطحوں پر فوری طور پر صحافیوں کے تحفظ کے قانون کو ورکنگ جرنلسٹس اور دیگر فریقین کی مشاورت سے منظور کروائے اور وفاقی و صوبائی سطح پر خصوصی پراسیکیوٹرز تعینات کرے جو ایف آئی آر کے اندراج، تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی میں مدد کرے۔
ادھر صحافیوں پر حملوں میں ملوث افراد کو حاصل استثنیٰ کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر آسٹریلین ہائی کمشنر مارگریٹ ایڈمسن نے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ ’ہم حال ہی میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں منتخب ہونے والے پاکستان اور اقوام متحدہ کی تمام اراکین ریاستوں کی توجہ صحافیوں کے لیے محفوظ اور قابل اطمینان ماحول کی فراہمی کی طرف دلانا چاہتے ہیں، تاکہ وہ اخلاقی اور آزادانہ طور پر کام کرسکیں۔‘