تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
یہ 1921 کی بات ہے کہ ایک فوٹو گرافر جس کانام جیمس بکس تھا، ایک ایکسیڈنٹ میں نابینا ہوگیا ،یہ پہلا فرد تھا جس نے اپنی چھڑی کو سفید رنگ کروا لیا تا کہ لوگ اس چھڑی کے رنگ سے سمجھ لیں اور اسے راستہ دیں ۔پھر 1930 میں بوم حیم نامی شخص نے لائنز کلب میں یہ نظریہ پیش کیا کہ نابینا افراد کی چھڑی کو سفید کر دیا جائے اور اس کو عام کیا جائے تاکہ نابینا افراد اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی علم ہو جائے کہ سفید چھڑی رکھنے والے شخص کو بینائی کی پرابلم ہے۔6 اکتوبر 1964 کو کانگریس نے ایک جائنٹ ریزولوشن HR753 پاس کیا جسے USA کے صدر نے منظور کیا کہ ہر سال 15 اکتوبر کو وائٹ کین سیفٹی ڈے منایا جائے گا۔
صدر جانسن پہلے شخص تھے جنہوں نے اس کو عام کیا اور پاس کیا اسی وجہ سے 1964ء سے اب تک ہر سال 15 اکتوبر انٹرنیشنل وائٹ کین سیفٹی ڈے منایا جاتا ہے ۔ وائٹ کین کو نابینا افراد کے لئے آزادی اور عزت کا نشان بنا دیا گیا ۔ عوام الناس کوبصارت سے محروم افرادکے حقوق کی آگاہی دینے کے لیے یہ دن پوری دنیا میں ذمہ داری سے منایا جاتا ہے، اس دن مختلف ادارے ،فلاحی این جی اوز سیمینارز ،کانفرنسزمنعقد کرتی ہیں، اخبارات میں اسپیشل ایڈیشن شائع کیے جاتے ہیں ،ٹی وی پر پروگرام کیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں یہ دن پہلی بار15اکتوبر 1972 کو منایا گیا، سفید چھڑی تو نابینا افراد کو چلنے پھرنے میں تحفظ فراہم کرتی ہے۔ آنکھیں ایسی نعمت ہیں ،جس کی صحت مند آدمی کو قدر نہیں لیکن جب بینائی کمزور ہوتی تو پھر اس کی قدرو قیمت کا اندازہ ہوجاتا ہے ۔
انسانی حواس میں یوں تو ہر حواس کی اپنی اہمیت ہے، لیکن ان میں بصارت سب سے اہم ہے،دیگر تمام حواس کی کارکردگی بھی بصارت کی وجہ سے ہی قائم ہے ۔ضعفِ بصارت کی ایک شکل Amblyopia یا بعید نظری ہے، یعنی دور کی نظر کمزور ہوتی ہے ،جب کہ دوسری Myopia یا قریب نظری ہے ۔ بینائی کی کم زوری کا مسئلہ عمر کے مختلف ادوار میں سامنے آسکتا ہے ۔اس کا حل عام طور پر عینک سے کیا جاتا ہے، بعض امیر لینز بھی لگا لیتے ہیں۔
اپنی بصارت کی حفاظت کے لیے ہم کو چند باتوں پر توجہ دینا ہوگی ۔سب سے پہلی بات غذا ہے، ایسی غذا جو متوازن ہواس سے نظر کو کمزور ہونے سے بچایا جا سکتا ہے ۔مچھلی ،گاجر،انڈہ، سوئف بادام گری استعمال کرنی چاہئے ۔سونف کے ساتھ ،مصری بھی ملا سکتے ہیں۔،بادام وغیرہ آنکھوں کی صحت برقرار رکھنے کے لئے بے پناہ مقوی ہے ۔مرچیں اور کھٹائی کا زیادہ استعمال آنکھوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ان ہدایات پر عمل کرنے سے ہم اپنی بصارت کی حفاظت کر سکتے ہیں۔
پڑھائی کے دوران روشنی کا مناسب اہتمام ،سرپر دن میں دو چار بارکنگھی ضرورکریں ، ہمیشہ نیم گرم یا ٹھنڈے پانی سے بال دھوئیںیا نہائیں،سورج کی طرف براہ راست نہ دیکھیں،ہرے بھرے درخت رات کو آسمان ،چاند لازمی دیکھیں،پشت کے بل لیٹ کر یا تکیہ لگا کر بالکل نہ پڑھیں ، صبح کے وقت عرق گلاب کے چھینٹے آنکھوں پرماریں ،کمپیوٹر وغیرہ پر کام کرنے،ٹی وی دیکھنے کے دوران وقفہ لازمی کریں، تھکن محسوس کریں توکچھ دیر کے لئے دونوں ہتھیلیوں سے آنکھوں کو اس قدر ڈھانپ لیں کہ گھپ اندھیرا ہوجائے۔
چند لمحوں کے لئے اس گھپ اندھیرے میں غور سے دیکھیں، اس سے آنکھوں کے پٹھوں اور اعصاب کو بھی راحت ملے گی ۔ ورزش کی عادت بنائیں،آنکھوں کی صفائی کا خیال رکھیں ۔سیکس کی دوائوں سے نزلہ زکام کی حالت میں ایلوپیتھک دوا سے خود کو بچائیں ۔ جماع کی کثرت ، نشہ، پیٹ بھر کھانا کھانے کے بعد سونا آنکھوں کے مضر ہے ۔تنگ جوتے نہ پہننا چاہئے ۔پاکستان کے سابق صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی بیٹی زین پیدائشی طور پر معذور تھی ،لیکن اپنی معصوم ادائوں کے باعث وہ جنرل محمد ضیاء الحق کو تمام بچوں میں سے پیاری تھی ،جب وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے ملک کے معذور افراد کو سپیشل افراد سے موسوم کر دیا اور سرکاری ملازمتوں بلکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ کے لئے بھی معذور افراد کا 2فیصد کوٹہ مقرر کیا۔
دوسری طرف ہمارے معاشرے میں نابینا افراد کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اس کی ایک جھلک اس واقعہ میں نظر آتی ہے جب صوبائی دارالحکومت لاہور میں نابینائوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے اپنے مسائل اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لئے مال روڈ پر اکٹھے ہونے کے بعد سیکرٹریٹ تک جلوس نکالنا چاہا اسی وقت پولیس کو کسی وی آئی پی شخصیت کے گزرنے کے لئے مال روڈ کو خالی کرانے کی ضرورت پیش آ گئی راستہ صاف کرنے کے لئے نابینا افرادپر لاٹھی چارج کیا گیا۔ اس لاٹھی چارج کے مناظر پورے ملک میں دیکھے گئے۔
پوری دنیا میں شائد یہ واحد واقعہ ہو جب بصارت سے محروم افراد کے ساتھ ایسا وحشیانہ سلوک کیا گیا ہو،اکثر ممالک میں سفید چھڑی میں اگر کوئی نابینا مرد یا عورت کوئی روڈ پار کرتا نظر آ جائے تو اس روڈ پر دونوں طرف کی ٹریفک کو اس وقت تک روک دیا جاتا ہے ،جب تک وہ روڈ کو پار کر کے دوسری طرف کے فٹ پاتھ پر نہیں پہنچ جاتا۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال