اسلام آباد(ایس ایم حسنین) امریکی سینیٹ نے سابق صدر کے مواخذے کی دستاویز، جو ‘ آرٹیکل آف امپیچمنٹ’ کہلاتی ہے، قبول کرکے ٹرائل کے لیے 9 فروری کی تاریخ مقرر کی ہے جس کے بعد ٹرمپ وہ واحد صدر بن گئے جنہیں دوسری مرتبہ اس قسم کے ٹرائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ٹرمپ کو سزا دینے کے لیے 2 تہائی اکثریت درکار ہے اس لیے ڈیموکریٹس کو اپنا یہ اقدام کامیاب بنانے کے لیے 17 ریپبلکن اراکین کے ووٹ درکار ہوں گے اور اگر سزا ہوگئی تو سادہ اکثریت کے ووٹ سے ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ وفاقی عہدہ سنبھالنے سے روکا جاسکے گا۔ امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکی ایوان نمائندگان کے 9 اراکین پیر کی شام امریکی سینیٹ میں آئے اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹرائل کے مطالبے کی دستاویز فراہم کیں۔ مواخذے کے آرٹیکل میں صدر ٹرمپ پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ‘امریکا کے خلاف تشدد کو ہوا دے کر سنگین جرائم اور بدعنوانیوں میں ملوث ہیں’۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ اس ٹرائل کا ردِ عمل بھی آئے گا لیکن ان کے خیال میں اسے ہونا ہوگا کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوا تو اس کے زیادہ برے اثرات ہوں گے۔ تاہم امریکی صدر کے پرزور اتحادی اور جنوبی کیرولینا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لِنڈسے گراہم نے کہا ہے کہ ‘آئینی دائرہ اختیار’ کی کمی کے باعث مواخذے کے اقدام کو ‘مسترد’ کیا جانا چاہیے تھا۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ان معاملات پر اب تک کوئی تبصرہ نہیں آیا اور وہ ٹرائل کے لیے اپنی قانونی ٹیم تشکیل دے رہے ہیں اور جنوبی کیرولینا کے ایک وکیل بوچ بوورز ان کی دفاعی ٹیم کی سربراہی کرسکتے ہیں۔ سینیٹ میں مواخذے کا آرٹیکل پہنچانے والے 9 اراکین کانگریس میں سے ایک رکن ٹیڈ لیو نے اس کارروائی کو ‘تاریخی’ قرار دیا، ان تمام 9 اراکین کو ایوان کے منتظم کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ سینیٹ میں ٹرائل کے دوران ایوان کی نمائندگی کریں گے۔خیال رہے کہ 100 اراکین پر مشتمل امریکی سینیٹ ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس میں مساوی طور پر منقسم ہے اور چونکہ نائب امریکی صدر اور ڈیموکریٹ رکن کمالا ہیرس کا ایک ٹائی-ووٹ ہے اس لیے ڈیموکریٹس کو سینیٹ میں غلبہ حاصل ہے۔امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق جوبائیڈن نے ایوان کے ڈیموکریٹس سے کہا تھا کہ چونکہ انہیں عہدے کے معاملات سنبھالنے اور ان کے نامزد عہدیداروں کی سینیٹ سے منظوری کے لیے کچھ وقت درکار ہے اس لیے ٹرائل کو مؤخر کردیا جائے گا۔اس کے علاوہ جو بائیڈن کو کورونا ریلیف پیکج کی منظوری کے لیے بھی ایوان میں حمایت درکار ہے۔
یاد رہے کہ 13 جنوری کو امریکی ایوان نمائندگان نے 197 کے مقابلے 232 ووٹوں سے سابق امریکی صدر کے مواخذے کی منظوری دی تھی تو اس میں 10 ریپبلکن اراکین نے ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق جوبائیڈن نے ایوان کے ڈیموکریٹس سے کہا تھا کہ چونکہ انہیں عہدے کے معاملات سنبھالنے اور ان کے نامزد عہدیداروں کی سینیٹ سے منظوری کے لیے کچھ وقت درکار ہے اس لیے ٹرائل کو مؤخر کردیا جائے گا۔اس کے علاوہ جو بائیڈن کو کورونا ریلیف پیکج کی منظوری کے لیے بھی ایوان میں حمایت درکار ہے۔
سی این این سے بات کرتے ہوئے جوبائیڈن نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ 17 ریپبلکن اراکین ڈونلڈ ٹرمپ کو سزا دینے کے لیے ووٹ دیں گے، جب سے میں رکن ہوں سینیٹ تبدیل ہوا ہے لیکن اتنا تبدیل نہیں ہوا۔
اس سے قبل جنوری 2020 میں ڈیموکریٹس کی اکثریت پر مبنی ایوان نمائندگان نے اختیارات کے ناجائز استعمال اور تحقیقات میں کانگریس کی راہ میں رکاوٹ بننے پر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کی تھی۔
تاہم فروری میں سینیٹ نے تاریخی مواخذے کے ٹرائل کے بعد سابق امریکی صدر کو مقدمے سے بری کردیا تھا جس کے بعد انہوں نے نہ صرف اپنے عہدے کی مدت پوری بلکہ دوسری مدت صدارت کے لیے انتخاب میں بھی حصہ لیا تھا۔