تحریر : ابن نیاز
گذشتہ سال ٨ ستمبر ٢٠١٥ کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ اردو زبان کو بحیثیت قومی زبان کے پاکستان میں تین ماہ کے اندر اندر نافذ کیا جائے۔ یہ فیصلہ بھی دیا گیا تھا کہ اسکے نفاذ کے ساتھ ہی سب دفاتر میں اور کسی بھی ادارے میں سب خط و کتابت اردو زبان میں ہو گی۔ یقینا تعلیمی نظام بھی خود کار طریقے سے اردو میں ہو جاتا۔عوام الناس کو بھی فائدہ ہوتا اور خواص کو بھی۔ ان خواص کو جو ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی کے مصداق کسی بھی عوامی عہدے پر عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر جاتے ہیں۔ انگریزی بولنا نہیں آتی، لیکن ٹائی کوٹ پینٹ پہن کر منہ ٹیڑھا کرکے بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یا پھر ہمارے میڈیا میں فلمی اور ڈرامہ اداکاروں و اداکارائوں کو فائدہ ہو گا۔ یا پھر کرکٹرز کو کہ بے چاروں سے سوال کچھ ہوتا ہے اور جواب کچھ اور۔ لیکن کیا کیا جائے، ہمارے دفاتر میں بیٹھے ان افراد کا جو گریڈ ١٨ یا اس سے اوپر کی حیثیت میں براجمان ہیں۔ کہ وہ اردو کو لاگو نہیں ہونے دیتے کیونکہ پھر وہ جو کچھ لکھیں گے۔
ایک پانچویں پاس چپڑاسی بھی پڑھ لیا کرے گا۔ وہ کسی عام بندے کو اردو میں خط لکھیں گے تو جو گول مول الفاظ انگلش میں استعمال کرتے تھے، وہ نہیں ہو سکیں گے۔ واضح الفاظ کی وجہ سے عوام الناس کو بھی علم ہو گا کہ ان کے ساتھ کیا کیا کھیل کھیلے جا رہے تھے۔ اب ایک سال بیت گیا۔ حکومت کے نمائندوں نے ایک سال تک تو اس کولٹکا لیا۔ اگرچہ اردو زبان کا نفاذ ١٤ ۔اگست ١٩٨٨ کو ہو جانا چاہیے تھا، لیکن پہلے جنرل ضیاء صاحب کو اسلام کے نفاذ سے ہی فرصت نہیں مل رہی تھی۔
پھر جونیجو حکومت ١٩٨٥ میں آئی تو اس کو جنرل صاحب سے محاذ آرائی سے فراغت نہیں تھی۔جونیجو صاحب کہتے تھے کہ بحیثیت آرمی چیف وہ انہیں سلیوٹ کریں۔ وہ کہتے تھے کہ بحیثیت صدر پاکستان وہ اس قانون سے ماورا ہیں۔اسی بحث و مباحثے میں اور گفت و شنید میں سن ٨٨ میں جونیجو حکومت برطرف کر دی گئی۔ اردو کا نفاذ نہ ہو سکا۔ ١٤ ۔اگست کو اردو نافذ کرنے کی آخری تاریخ تھی، لیکن جب اردو نافذ نہ ہوئی تو اس کا انتقام سخت نکلا۔ ١٧۔اگست ١٩٨٨ کو جہاز کریش ہو گیا۔ اردو کیسے نافذ ہوتی۔ پھر تو جمہوریت کا دور ہی چل پڑا۔ لنگڑی لولی جمہوریت کبھی میں ، کبھی تو کی باری باری میں کرسی لیتے رہے۔یہ باری باری کی گولہ باری بھی انگلش میں ہی ہوتی رہی۔
خیر ایک سال بیت گیا لیکن اردو کا نفاذ نہ ہو سکا۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ جونہی عدلیہ نے اردو کے نفاذ کا فیصلہ دیا، حکومت نے ایک عدد حکم نامہ جاری کیا کہ تین ماہ کے اندر اندر ہر ادارہ اپنے سب قاعدے ، ضوابط اور قوانین اردو میں ترجمہ کر دیں۔ اگر کسی ادارے کی انٹرنیٹ ویب سائیٹ ہے تو اس کو بھی اردو میں ترجمہ کر دیں۔ بے شک انگریزی ساتھ ہو کہ بیرونی ممالک سے بھی لوگ ویب سائیٹ تک رسائی حاصل کرتے ہیں تو ان کو بھی آسانی ہو۔ وہ تین ماہ تو اداروں نے کام کیا۔ کم از کم اسلام آباد کے زیادہ تر اداروں نے اپنے اپنے قواعد و ضوابط اردو میں ترجمہ کر دیے۔ کسی حد تک ویب سائیٹس کو بھی اردو میں کر دیا گیا لیکن ہوا کیا۔ تین ماہ بعد نہ تو حکومت نے مڑ کر خبر لی، نہ ہی کسی اور کو یہ خیال آیا کہ پوچھا جائے ہوا کیا ہے؟ پاکستان تحریک نفاذ اردو نے اس ایک سال میں کئی بار حکومت کو باور کرایا کہ اگر عدالت عظمیٰ کا حکم نہ مانا گیا تو کہیں توہین عدالت کے زمرے میں نہ آجائے۔ لیکن جس کے کان پر جوں تک نہ رینگے اسے ان باتوں سے کیا سرو کار۔
اردو کا نفاذ کوئی مشکل نہیں ہے۔ بس ایک حکم کی بات ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر سے ایک حکم نکلنا ہے کہ پاکستان میں اردو کا نفاذ ہو گیا ہے ۔ آج سے ساری دفتری کارروائی اردو میں کی جائے گی۔ کوئی کیفیت لکھی جائے گی یا کوئی مراسلت، سب کچھ اردو میں ہو گا۔ بے شک وہ ادارے جو بیرونی ممالک کے ساتھ خط و کتابت کرتے ہیں ، ان کے ساتھ انگریزی میں مراسلت جاری رکھیں۔ لیکن اندرونِ دفتر اور اندرونِ ملک ساری مراسلت و کیفیت نویسی اردو میں ہو گی۔ زیادسے زیادہ کیا ہوگا ؟ چند دن، چندہفتے پریشانی کے ہوں گے۔ تکلیف کے ہوں گے۔ لیکن خود بخود زبان اور ہاتھ دفتری اردو میں سیدھے ہو جائیں گے۔ حالانکہ لکھی بھی وہی اردو جانی ہے جو عام بول چال میں مروج ہے۔
فرق ہے تو صرف ان اصطلاحات کا جو دفتری ماحول کے ساتھ مخصوص ہیں۔ لیکن اس کا بھی نہایت عمدہ حل موجود ہے۔ مقتدرہ قومی زبان نامی ادارے نے برسوں پہلے انگریزی سے اردو کی ایک لغت اس انداز میں تیار کی تھی کہ جس میں دفتری زبان سے متعلق تقریباً ہر ہر لفظ موجود ہے۔ وہ لغت ٣، ٤ کی تعداد میں ہر آفس میں پہنچا دی جائیںاور اس سے مدد لی جائے۔چند دنوں میں ہر فرد کافی حد تک ماہر ہو جائے گا۔ وہ افسران جو کمپیوٹر پر کام کرتے ہیں انہیں صرف پانچ دن کی اردو ان پیج میں تربیت دی جائے تو پانچ دن بعد نہ صرف وہ اردو میں کمپیوٹر پر روانی سے لکھ سکیں گے بلکہ دفتری اردو میں بھی رواں ہوں گے۔
لیکن عوام کو آسانی کیوں مہیا کی جائے؟ انہیں کیوں بتایا جائے کہ ان کے مسلے کا حل یہ ہے۔ انہیں آسان زبان میں کیوں بتایا جائے کہ وہ اپنے مسلے کے حل کے لیے کیا راستے اختیار کریں۔ جب تک انہیں دفتر کے چکر پر چکر نہ لگوائے جائیں، دفتر والوں کو آرام نہیں آتا اس کی نسبت اگر اردو میں ان کو ایک ہی خط لکھ دیا جائے اور ان کو بتا دیا جائے کہ یہ مسلہ آپ کے مسلے میں پیش آرہا ہے، تو مکتوب الیہ آسانی سے سمجھ جائے گا اور اس کے بعد جو بھی راہ اختیار کرے گا وہ بہت سوچ سمجھ کر چنے گا۔ چین کی قوم کی ترقی کی ایک بنیادی وجہ ان کی اپنی قومی زبان کو ترجیح دینا ہے۔ باہر سے کوئی بھی لکھی ہوئی تحریر آتی ہے تو چین نے باقاعدہ ایک ادارہ بنایا ہوا ہے جو اس کو چینی زبان میں ترجمہ کرتا ہے۔ پھر اس سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے عوام کو فائدہ نہیںدے سکتے۔ اردو کے نفاذ کے دشمن کہتے ہیں کہ تعلیم و تربیت میں فرق پڑ جائے گا۔
ہم زمانے سے بہت پیچھے چلے جائیں گے۔ ہر گز نہیں۔ میں تو یہ کہوں گا ہم پہلے سے بہت آگے اور بہت تیزی سے ان شاء اللہ ترقی کے مدارج طے کریں گے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میںکوئی بھی تحقیق ہوتی ہے۔ اگر وہ پاکستان تک آجاتی ہے تو چین کی طرح کا کوئی ادارہ بنایا جائے، جو اس کو اردو میں ترجمہ کرے، اصطلاحات کو اردو کے سانچے میں ڈھالے۔ جب وہ چیزیں اردومیں طلباء کے سامنے آئیں گی تو کوئی وجہ نہیں کہ جہاں انگریزی کی وجہ سے ایک طالب علم کو رٹہ لگانا پڑتا ہے، اردو کی وجہ سے وہ اس کو دو تین دفعہ پڑھ کر ہی یاد کر لے گا۔ ان کے امتحانات آسان ہو جائیں گے۔ مقابلے کے امتحانات کو آپ اردو میں کریں اور پھر دیکھیں اردو کا کرشمہ۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس طرح کے ذہین افراد سامنے آئیں گے کہ پاکستان کو ترقی کے ہر میدان میں آسمان کی بلندیوں تک پہنچا کر دم لیں گے۔
پاکستان میں بہترین ذہن کے افراد موجود ہیں۔ کم پڑھے لکھے ہیں۔ اکثریت انگریزی کی وجہ سے پیچھے ہے۔ اگر اردو میں وہ پڑھ لکھتے، انگریزی کو صرف ایک اختیاری مضمون کے طور پر رکھیں یابے شک لا زمی قرار دے دیں کہ انگریزی سمجھنے کے قابل ہو سکے، تو وہ لوگ یوں اپنی ذہانت کا مظاہر کریں کہ دنیا انگشتِ بدنداں رہ جائے۔ یہ عرضی ہے حکومت وقت سے ، اربابانِ اختیار سے کہ قوم کی تقدیر سے نہ کھیلیں۔ انہیں اپنی تقدیر خود بنانے دیں۔ اگرپاکستان کو واقعی میں دنیا میں مثبت کاموں میں اول پوزیشن حاصل کرنی ہے تو اردو کو رائج کریں۔ بے شک اور بھی بہت سے کام ہیں جن کی وجہ سے پاکستان ترقی کر سکتا ہے لیکن اگر یہ سارے کام کسی اور زبان کی بجائے اردو میں انجام دیے جائیں تو کیا مضائقہ ہے؟۔
تحریر : ابن نیاز