یہ ایک سرپرائز ہے۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ چوہدری شجاعت حسین اتنا سچ بول سکیں گے لیکن پاور پالیٹکس کے اس دور میں چوہدری صاحب نے کافی شجاعت دکھا دی ہے اور اپنی کتاب میں کچھ ایسی باتیں لکھ ڈالی ہیں جو صرف نواز شریف نہیں بلکہ پرویز مشرف کے دل میں بھی کانٹا بن کر پیوست رہیں گی۔چوہدری شجاعت حسین کی آپ بیتی ’’سچ تو یہ ہے !‘‘غالب کے اس شعر سے شروع ہوتی ہے؎
صادق ہوں اپنے قول کا، غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
یہ شعر پڑھ کر میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور میں سوچنے لگا کہ الیکشن قریب ہیں اور سیاسی کھینچا تانی میں اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے اس صورتحال میں بھلا چوہدری صاحب کیا سچ بولیں گے لیکن چوہدری صاحب نے صرف دوسروں کے بارے میں نہیں اپنے بارے میں بھی سچ سے کتاب کی ابتداء کی۔ انہوں نے لکھا کہ جب دریائے چناب کے کنارے آباد ان کا گائوں ’’نت وڑائچ‘‘ دریا برد ہو گیا اور سب ختم ہو گیا تو ان کے والد چوہدری ظہور الٰہی نے پولیس میں نوکری کرلی بعدازاں انکے والد نے اپنے بھائی چوہدری منظور الٰہی کیساتھ ملکر چند پاور لومز بنائیں اور لِیلن (بریزے)
پاکستان میں متعارف کروائی۔پھر پولیس کا ایک سابق سپاہی الیکشن لڑ کر قومی اسمبلی میں پہنچا۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ان کے والد پر بھینس چوری سمیت سو سے زائد مقدمات بنائے گئے لیکن انہوں نے آگے چل کر ذوالفقار علی بھٹو اور اس وقت کی پارلیمنٹ کو بھی خراج تحسین پیش کیا جس نے مسئلہ قادیانیت کو ہمیشہ کیلئے طے کرکے امت مسلمہ پر ایک احسان کیا۔اس کتاب میں چوہدری صاحب نے خان عبدالغفار خان( باچا خان) کی اپنے والد سے دوستی کی تفصیل بیان کرنے کے بعد یہ بھی لکھ ڈالا کہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اپوزیشن کے جلسے پر فائرنگ کے بعد اجمل خٹک اتنے دل گرفتہ ہوئے کہ انہوں نے میرے والد کے سامنے ولی خان سے کہا کہ اب میں پاکستان میں نہیں رہوں گا میں افغانستان جا رہا ہوں۔پھر چوہدری ظہور الٰہی نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری سیٹھ اشرف کو ہدایت کی کہ اجمل خٹک کو بارڈر کراس کروا دیں اور اگلے دن اجمل خٹک کو طورخم کے راستے افغانستان پہنچا دیا گیا۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب’’ان دی لائن آف فائر‘‘ میں بڑے فخر سے لکھا تھا کہ مسلم لیگ (ق) انہوں نے بنائی تھی۔چوہدری صاحب کی کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) جنرل ضیاءالحق نے بنوائی تھی ۔جنرل ضیاء اپنے ہی لائے ہوئے وزیر اعظم محمد خان جونیجو سے ناراض تھے۔ ایک دن جنرل ضیاء نے چوہدری شجاعت حسین کو بلا کر بتایا کہ آپ کا وزیراعظم بھی عجیب آدمی ہے ۔میرے گھر میں تیس سال سے ایک مالی کام کر رہا ہے میں نے اس کی ایکسٹینشن کا کیس ان کو بھیجا تو انہوں نے فائل پر ’’نو‘‘ لکھ کر واپس بھیج دی ہے ۔ محمدخان جونیجو کی حکومت برطرف ہوئی تو نواز شریف نے جنرل ضیاءالحق کا ساتھ دیا جبکہ چوہدری شجاعت حسین برطرف وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے رہے اور گجرات میں ان کیلئے جلسے کا اہتمام بھی کیا۔شہباز شریف کو چوہدری شجاعت حسین کے پاس بھیجا گیا کہ آپ جونیجو کا ساتھ چھوڑ دیں لیکن چوہدری صاحب نے انکار کردیا۔نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔وہ ناراض ہو گئے انہوں نے چوہدری وجاہت حسین اور چوہدری شفاعت حسین پر جھوٹے مقدمات بنوائے لیکن اس کے باوجود 1988ءکے الیکشن میں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کامیاب ہو گئے ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کو مرکز میں اکثریت حاصل تھی انہوں نے فاروق لغاری کے ذریعے چوہدری شجاعت حسین سے رابطہ کیا اور چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کی پیشکش کی۔یہ وہ موقع تھا جب میاں محمد شریف مرحوم درمیان میں آ گئے اور انہوں نے وعدہ کیا کہ اس دفعہ آپ نواز شریف کو وزیر اعلیٰ بننے دیں جب نواز شریف وزیر اعظم بن جائیں گے تو ان کا وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی ہو گا۔چوہدری برادران نے میاں محمد شریف کی بات مان لی اور پیپلز پارٹی کی پیشکش مسترد کردی۔چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم بنتے ہی جنرل ضیاءالحق کے خاندان کو آرمی ہائوس خالی کرنے کا حکم دیا ۔بیگم شفیقہ ضیاء الحق نے نواز شریف سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کسی کرائے کے گھر میں چلے جائیں۔ پھر بیگم شفیقہ ضیاء نے بیگم چوہدری ظہور الٰہی سے رابطہ کیا تو انہوں نے چوہدری شجاعت کو حکم دیا کہ آپ اپنا گھر جنرل ضیاء کے خاندان کو دیدیں اور خود کرائے کے گھر میں چلے جائیں۔جب تک بیگم شفیقہ ضیاء کا مکان تعمیر نہ ہوا وہ چوہدری شجاعت حسین کے گھر میں مقیم رہیں۔ 1990ءکے انتخابات کے بعد نواز شریف وزیر اعظم بنے تو پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کی جگہ غلام حیدر وائیں وزیر اعلیٰ بن گئے۔1997ء میں نواز شریف دوسری دفعہ وزیر اعظم بنے تو ایک دفعہ پھر چوہدری پرویز الٰہی کو نظرانداز کرکے شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ 1997ءمیں چوہدری شجاعت حسین کو وزیر داخلہ بنایا گیا ۔ ایک دن انہیں پتہ چلا کہ سپریم کورٹ پر حملے کیلئے لاہور سے کچھ لوگ لائے گئے ہیں۔چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ انہوں نے اسلام آباد پولیس کو ہدایت کی کہ لاہور سے آنے والوں کو گوجرخان میں روک لیں لیکن یہ سب شہباز شریف کی نگرانی میں ہوا اور انہوں نے پنجاب ہائوس میں حملے کیلئے آنیوالوں کو قیمے والے نان کھلائے۔ چوہدری صاحب نے لکھا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کسی نہ کسی طریقے سے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو گرفتار کرنا چاہتے تھے ۔اس زمانے میں سینیٹر سیف الرحمان نے اینٹی نارکوٹکس فورس کے ساتھ مل کر آصف زرداری پر منشیات اسمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ بنانے کی کوشش کی۔اے این ایف نے لکھ کر دیدیا کہ یہ مقدمہ کمزور ہے لیکن سیف الرحمان روزانہ وزیر اعظم کے پی ایس او کیساتھ آکر مجھ سےکہتے کہ یہ کیس بنانا ہے لیکن چوہدری شجاعت حسین نے فائل پر ’’نو‘‘ لکھ دیا ۔چوہدری صاحب نے اس کتاب میں ایک ایسا سچ لکھ دیا ہے جو شاید کسی عدالت میں ثابت نہ ہو سکے لیکن یہ سچ ایک تاریخی حقیقت ہے ۔چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ مشرف دور کے ڈی جی ملٹری انٹیلی جینس میجر جنرل ندیم اعجاز کا لب ولہجہ اکبر بگٹی کے بارے میں بڑا سخت ہوتا تھا ۔ایک دن چوہدری صاحب اور مشاہد حسین دونوں ندیم اعجاز کے گھر گئے اور انہیں کہا کہ اکبر بگٹی ہمیشہ وفاق کے حامی رہے ہیں لہٰذا انہیں مارنا نہیں گرفتار کر لینا۔اگلے ہی روز اکبر بگٹی کو شہید کر دیا گیا۔
چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے لال مسجد کا مسئلہ حل کر چکے تھے۔ انہوں نے ان مذاکرات کے سلسلے میں میرے کردار کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ مذاکرات کی بحالی میں حامد میر کا کیا کردار رہا ۔عبدالرشید غازی اور چوہدری صاحب کے درمیان ایک صلح نامہ بھی طے پا گیا تھا لیکن مشرف نے یہ صلح نامہ مسترد کردیا ۔چوہدری صاحب نے اپنی کتاب میں مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کا ایک دستخط شدہ بیان شامل کر دیا ہے ۔مفتی صاحب ان مذاکرات کا حصہ تھے اور انہوں نے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار مشرف کو قرار دیا ہے۔چوہدری صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ 2008ء کے انتخابات میں مشرف نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ۔ ابھی پولنگ جاری تھی کہ شام چار بجے مشرف نے فون پر چوہدری صاحب سے کہا کہ آپ کو پینتیس چالیس نشستیں ملیں گی آپ نتائج تسلیم کر لیں کوئی اعتراض نہ کیجئے گا ۔ابھی گنتی شروع نہ ہوئی تھی اور مشرف نے اپنا فیصلہ سنا دیا ۔پھر مشرف نے چوہدری صاحب کو مسلم لیگ (ق) کی صدارت سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن فاروق لغاری اور فیصل صالح حیات نے کوشش ناکام بنا دی ۔چوہدری صاحب کی یہ کتاب ان سب کو ضرور پڑھنی چاہئےجو نادیدہ قوتوں کیساتھ مل کر نئی نئی پارٹیاں بنا رہے ہیں۔یہ نادیدہ قوتیں قابل اعتبار نہیں ہوتیں قابل اعتبارصرف اللہ اور عوام ہیں ۔چوہدری صاحب نے تمام دھوکوں کے باوجود اپنا سیاسی وجود برقرار رکھا ۔ان کی سیاسی بقاء اور ان کی کتاب دونوں ہی سرپرائز سے کم نہیں