تحریر: نادیہ خان بلوچ
اگر تاریخ اٹھا کے دیکھی جائے تو آج تک پوری دنیا میں عام انسانوں میں بہت ہی کم ہی ایسی کوئی ایک مثال ملتی ہے جہاں ایک عام آدمی نے امیر ترین غریب انسان کی زندگی بسر کی ہو. جس نے اپنا کل اپنا آج اور اپنا مستقبل دوسروں کی خدمت کیلئے قربان کر دیا ہو. جسکی زندگی کا واحد مقصد حقوق العباد ادا کرنا ہو. جسکا کام غریبوں، یتیموں، مسکینوں، بیواؤں کو سہارا دینا ہو. انکا سرپرست بننا ہو. وہ لوگ جو اپنے بچے پھینک جاتے ہیں ایسے بچوں کو کچرا کنڈی سے اٹھا کے انکی والدیت کے خانے میں اپنا نام لکھواتا ہو. گھر سے دھتکارے ہوؤں کو پناہ دینا ہو. بے گورو کفن جلی ہوئی لاوارث لاشوں کو سڑک کے کنارے سے بنا ابکائی لیے اٹھا کے ایسے غسل دیتا ہو جیسے خوشبو آتی ہو.
مردوں کا وارث بنتا ہو. نیلسن منڈیلا بھی اس تعریف پر پورے نہیں اترتے. مگر عبدالستار ایدھی واحد ایسا شخص ہے جسکا نام ہی ان الفاظ کی سچی ترجمانی کرتا ہے. ان کیلئے یہ تعریف بے معنی ہے. یکم جنوری 1928ئ کو بھارت کے علاقے گجرات میں پیدا ہونے والا یہ انسان انسانوں کا مسیحا بن گیا. ایک واقعے نے عبدالستار ایدھی کی پوری زندگی بدل کے رکھ دی. ایک روز جب عبدالستار ایدھی کپڑوں کی دکان پہ بیٹھے تھے تو سامنے سڑک پہ کسی نے ایک آدمی کو چاقو مار دیا. مسلسل خون بہتا رہا اور وہ آدمی ٹرپتا رہا مگر کوئی پاس نہ آیا. تب عبدالستار ایدھی نے پاس جاکر انکو اٹھایا.
پٹی کی اور اس دن سے ان میں جذبہ انسانیت اور انسانیت کی خدمت انکی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بن گیا. پاکستان بننے کے بعد آپ پاکستان آگئے. یہاں عبدالستار ایدھی نے کپڑے ڈھو ڈھو کے 500 جمع کیا اور 1951 میں اپنی ڈسپنسری کھولی. بعد ازاں جب ایمبولینس کی ضرورت محسوس ہوئی تو چندہ اکٹھا کرکے ایک استعمال شدہ پرانی ایمبولنس بھی خرید لی جسے وہ خود چلاتے. یہاس ایمبولنس کے ذریعے وہ خود زخمیوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے لاتے. سڑک کے کنارے کوئی انسان تو کیا جانور بھی حالت زار میں ملتا تو اسکا بھی علاج کرتے. انسانیت سے محبت کا جذبہ ان کی رگوں میں خون کی طرح گردش کرتا رہا جوانی سے لیکر بڑھاپے تک اس میں ذرا سی بھی کمی نہ ہوئی.
انسانیت کی فلاح و بہبود کا یہ کام کچھ ایسے پھیلتا گیاکہ ایدھی ایمبولینس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بن گئی. ایدھی صاحب کا یہ کام صرف کراچی تک ہی محدود نہ رہا جب بھی کوئی ناگہانی آفت آئی ایدھی صاحب پیش پیش رہے. پورے ملک میں پونے چار سو قریب انکے ہسپتال ہیں. انہوں نے انسانیت کی خدمت مذہب،زبان،رنگ، نسل ان سب چیزوں سے بالاتر ہوکر کی. جس طرح ہر مذہب نے سب سے پہلے انسانی حقوق پر زور دیا انسانیت کا درس دیا اس طرح انکے نزدیک سب سے بڑا مذہب انسانیت ہی رہا.
پوری زندگی انہوں نے انسانیت کا درس دیا. جہاں ایدھی خانے کا ماہانہ بجٹ ایک کروڑ رہا وہیں ایدھی صاحب نے اپنی پوری زندگی صرف دو جوڑوں میں گزار دی. انکے استعمال میں جو جوتا تھا وہ بھی بیس سال پرانا تھا. ان کی زندگی میں کئی بار ایسے لمحات آئے کہ انہیں قتل کی بھی دھمکیاں دی گئیں. کئی سیاسی جماعتوں نے انہیں سیاست میں شامل کرنا چاہا. انکے خلاف کئی سازشیں کی گئیں ایدھی فاؤنڈیشن پر الزام تراشی کی گئی. امریکہ برطانیہ سے فنڈ لینے کا الزام تک بھی لگایا گیا. انکی ایمبولنس سروس پر بھی حملے کیے گئے میں اور آپ اگر انکی جگہ ہوتے تو جان کی خاطر ان دھمکیوں سے ڈر جاتے کام بھی چھوڑ دیتے. یا پھر اپنے ساتھ ہائی سیکورٹی ڈیمانڈ کرتے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا اپنی پوری زندگی اپنی ڈسپنسری کے باہر بینچ پہ سو کر گزار دی. جو خیرات ملتی اس میں سے اپنے اوپر ایک پیسہ بھی خرچ نہ کیا. خود اگر ہاتھ پھیلاتے بھی تو صرف ایدھی ویلج کے لوگوں کیلئے. ایسا نہیں کہ انہوں نے صرف بیمار،مجبور یا پھر غربا کو اپنایا بلکہ انہوں نے پری میچیور بچوں کو بھی سنبھالا. وہ لوگ جو اب انہیں قادیانیوں کا دوست کہہ رہے ہیں انہیں یہ واقعہ یاد کراتی چلوں جب بھارت کی بچی گیتا غلطی سے پاکستان آگئی اور پاکستان میں ایدھی ٹرسٹ میں اس کو رکھا گیا.
اپنی بیٹی کی طرح سمجھا گیا. اسکی عزت اور جان کی حفاظت اپنی عزت سمجھ کے گئی تو ایدھی ٹرسٹ کے توسط سے جب پاکستان سے بحفاظت ت بھارت پہنچانے پر سشما سوراج نے امداد دینے کا کہا تو ایدھی صاحب نے انکار کردیا. یہ تھا انکا بڑا پن اور اپنے مذہب اور وطن سے محبت. اب بھی اگر ان کو کوئی غلط کہتا ہے تو انکی مورتی بنا کے آرتی ہی اتاری جاسکتی ہے.کیونکہ فقط پتھروں کے جذبات نہیں ہوتے وہ انسانیت کو نہیں سمجھتے یوں تو جانور بھی دل رکھتے ہیں. انہوں نے بنا چھٹی کے کام کرنے کا سب سے بڑا عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا. انکی خدمات پر انہیں کئی ایوراڈز سے بھی نوازا گیا. انہوں نے ایدھی ٹرسٹ کے چندے سے عمران خان کے کینسر ہسپتال شوکت خانم کو بھی عطیہ دیا. ان کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ اگر وہ چاہتے تو اپنی پوری زندگی بہت شاہانہ انداز میں بسر کرسکتے تھے اور اپنی اگلی نسل کیلئے بھی بہت کچھ چھوڑ جاتے. مگر انہوں نے ایسا نہ کیا.
ہمارے حکمرانوں کی طرح دل کی چھیڑ پھاڑ کے بہانے وطن کو نہ چھوڑا. آخری وقت میں بھی وطن عزیز میں ایک عام غریب آدمی کی طرح سرکاری ہسپتال میں علاج کرانے کو ترجیح دی. سندھ حکومت نے بیرون ملک علاج کی پیش کش کی تو انہوں نے ٹھکرا دی. اسے کہتے ہیں اصل انسان. یوں تو بہت انسان ہیں مگر جس میں انسانیت نہیں وہ انسان کیسے ہوسکتا ہے؟ ایدھی صاحب نے انسانیت کی بہت بڑی مثال قائم کی. نا ممکن ہے ایدھی تجھ سا ہونا. ایدھی صاحب کے یہ فلاحی کام انکی زندگی تک ہی محدود نہ رہے بلکہ انہوں نے اپنی سانسوں کو الوداع کہنے کے بعد بھی انکو جاری رکھا. انہوں نے اپنے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد اگر میرے جسم کا کوئی اعضائ کسی کے کام آ سکے تو وہ نکال کے عطیہ کر دیجئے گا.
انکے مرنے کے بعد انکے بیٹے کی موجودگی میں انکی آنکھیں عطیہ کردی گئیں. یہ تھا اصل انسان. انکی میت کو پورے فوجی انداز میں سلامی کے ساتھ انکی اپنی بنائی ہوئی 25 سال پرانی قبر میں سپرد خاک کردیا گیا. جس انسان نے مرتے دم تک سیکورٹی نہ لی مرنے کے بعد اسے ہائی سیکورٹی دی گئی ملک بھر میں سوگ منایا گیا. آرمی جنرل راحیل شریف،صدر ممنون اور کئی اہم شخصیات نے انکے نماز جنازہ میں شرکت کی. انکی وفات پہ ہر انکی اشک بار تھی. پاکستان یتیم ہوگیا. وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے بعد از مرگ ایدھی صاحب کیلئے نشان حیدر کا اعلان کیا.
پاکستان کرکٹ بورڈ نے قذافی سٹیڈیم کا نام ایدھی صاحب کے نام پر رکھنے کی تجویز دی. مگر اس سب سے یہ کیا ہوگا؟ اگر واقعی میں ایدھی صاحب کی خدمت کا اعتراف کرنا ہے انہیں کوئی اعزاز دینا ہے تو اصل اعزاز یہ ہے انہوں نے جو شمع جلائی اسے بجھنے نہ دیا جائے. ایدھی ایمبولنس ویسے بھی دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس ہے مگر اسکو اور زیادہ فروغ دیا جائے. سرکاری ہسپتال کا نظام درست کیا جائے. انکے کام کو جاری رکھا جائے. ایدھی فاؤنڈیشن کو کچھ رقم اعزازیے کے طورپر دی جائے. ورنہ یہ نوبل ایوارڈ کسی بھی کام کا نہیں. “بہت مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے ایدھی تجھ سا ہونا.
تحریر: نادیہ خان بلوچ