میئر کراچی وسیم اختر نے واضح کیا ہے کہ موجودہ وسائل میں کراچی کے 8 سالوں کے کچرے کو 100 روز میں صاف کرنا ممکن نہیں ہے۔
ڈان نیوز کے پروگرام ‘نیوز وائز’ میں گفتگو کرتے ہوئے وسیم اختر کا کہنا تھا ‘میں نے صرف چند یوسیز کو کچرے سے پاک کرنے کا وعدہ کیا تھا، موجودہ وسائل میں اتنی بڑی مقدار میں موجود کچرے کو نہیں اٹھایا جاسکتا’۔انھوں نے کہا ‘بطور میئر کراچی میرے پاس جو اختیار ہیں، میں نے ان کا استعمال کرتے ہوئے کچھ علاقوں میں کچرے کا مسئلہ حل کیا، لیکن سندھ حکومت اس کام میں مکمل طور پر غیر سنجیدہ ٍہے’۔
مزید پڑھیں: میئر کراچی کا الٹی میٹم ختم، شہر سے کچرا نہ اٹھایا جاسکا
ان کا کہنا تھا کہ اصل اختیارات اور وسائل سندھ حکومت کے پاس ہیں جس نے اب تک اس بارے میں کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔میئر کراچی نے کہا کہ انھوں نے اپنی مہم میں عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان محدود وسائل کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے، لہذا ہم نے شہر کے کچھ مقامات سے کچرے کو صاف کیا۔وسیم اختر کا کہنا تھا کہ اگرچہ سندھ حکومت نے حال ہی میں کراچی کو کچرے سے پاک کرنے کے لیے ایک چینی کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن بدقسمتی سے چار ماہ بعد بھی اس حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔انھوں نے سندھ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے شہر میں کچرے کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ حکومت کی غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر کچرے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘سندھ حکومت نے تمام اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں، لیکن وہ پھر بھی چینی مشینری کی منتظر ہے’۔وسیم اختر کا مزید کہنا تھا کہ صرف کراچی نہیں، بلکہ اندرون سندھ لاڑکانہ اور سیہون میں بھی حالات کچھ مختلف نہیں ہیں۔میئر کراچی نے کہا کہ ‘یہ شہر ملک کو سب سے زیادہ ریونیو فراہم کرتا ہے، لیکن بدقسمتی سے کوئی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں’۔خیال رہے کہ میئر وسیم اختر نے 3 ماہ قبل شہر میں صفائی مہم کا آغاز کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ 3 ماہ کے اندر شہر سے کچرے کے ڈھیر ختم کردئیے جائیں گے، تاہم میئر کی جانب سے دیا گیا الٹی میٹم ختم ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: 100 روزہ ’صفائی مہم‘ کا کل سے آغاز
وسیم اختر نے یکم دسمبر 2016 کو شہر بھر میں صفائی مہم کا آغاز کیا تھا، جس کا آج آخری دن ہے، مگر شہر میں کچرے کے ڈھیر اور عدم صفائی کی حالت تین ماہ قبل والی صورتحال سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔میئر کراچی کی جانب سے 100 روز کے دوران ضلع شرقی، وسطی اور کورنگی کے اضلاع میں سڑکوں کی مرمت اور صفائی کا آغاز کیا گیا تھا۔منصوبے کے تحت ان تین اضلاع کی 15 سے 20 منتخب یونین کونسلز میں اسکول، پارکس، کھیل کے میدان اور ہسپتال بھی تعمیر کیے جانے تھے۔
پورے 100 دن گزر جانے کے بعد کراچی کے تینوں اضلاع میں صفائی کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ فرق نظر نہیں آئے گا۔کراچی کی صفائی اور شہر سے کچرے کے ڈھیر ہٹانے کے لیے سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بھی الٹی میٹم دیا تھا، مگر وہ بھی اسے پورا کرنے میں ناکام رہے تھے۔قائم علی شاہ خود تو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے چلے گئے، مگر کراچی کا کچرا وہیں کا وہیں رہ گیا۔
بعد میں وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھنے والے سید مراد علی شاہ نے آتے ہی بیورو کریسی کو حکم دیا کہ 48 گھنٹوں میں شہر کی صفائی ہو جانی چاہئیے۔بعد ازاں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے بھی کراچی میں صفائی مہم کا آغاز کیا، جو کچھ ہفتوں تک جوش سے جاری رہنے کے بعد ختم ہوگئی، مگر کراچی کا کچرا ختم نہ ہوا۔