انسداد دہشت گردی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی پاکستان میں درج ایف آئی آر سے انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات ختم کرنے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کی سماعت ہوئی۔ ایف آئی اے نے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی کہ ایم کیو ایم لندن کے رہنماؤں افتخار حسین، محمد انور اور کاشف خان کامران کےگھر پر کراچی میں چھاپے مارے گئے تاہم گرفتاری عمل میں نہ آ سکی۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے تینوں مفرور ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملزم معظم علی کے وکیل بیرسٹر سیف نے مقدمہ سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کی درخواست پر دلائل میں کہا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پورے ملک میں خوف و ہراس پھیلا تھا مگر عمران فاروق کے قتل کے بعد ایسا نہیں ہوا ۔ قتل کے پانچ سال بعد تین ملزمان پکڑے گئے جنہیں مقتول کی اہلیہ نے کبھی نامزد نہیں کیا۔ صرف تفتیشی ایجنسی کاکہناہے کہ قتل میں ایم کیو ایم کے بانی قائد سمیت محمد انور اور افتخار حسین ملوث ہیں۔الزام ہے کہ بانی ایم کیو ایم کو عمران فاروق سے سیاسی خطرہ تھا۔عمران فاروق روزانہ ایم کیو ایم کے سیکرٹریٹ سے گزرتے تھے ،ان دنوں مصطفی کمال کراچی میں آزاد گھوم پھر رہے ہیں ۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ ہے نہ میڈیکو لیگل رپورٹ ، صرف اعترافی بیانات ہیں،ملزمان کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا،ملزمان کے سری لنکا سے پاکستان آنے کا ثبوت کدھر ہے ؟ عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا جو23 فروری کو سنائے جانے کا امکان ہے۔ عدالت نے تینوں گرفتار ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ میں بھی 23 فروری تک توسیع کر دی۔