۔۔(” اندر کی بات ” کالم نگار :اصغر علی مبارک) سینیٹ الیکشن میں اسلام آباد کی نشست پر اپ سیٹ شکست کے بعد وزیراعظم عمران خان کافی اپ سیٹ تھے جس کے بعد انہوں نے قوم سے خطاب بھی کیا اور قومی اسمبلی کے ممبران سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا فیصلہ کر کے اپوزیشن جماعتوں کے تمام منصوبوں کو ناکام بنا دیا اور قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر کے ثابت کردیا کہ اپوزیشن اتحاد کی عمران خان کو دباو میں لا کر این آر او لینے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا قومی اسمبلی کے 178 اراکین نے ان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا کہ آئندہ انتخابات میں میں بھی حکومت کو عوام کا اعتماد حاصل رہے گا تاہم اس کے لیے باقی اڑھائی سال میں حکومت کو عوام دوست پالیسیوں پر عمل پیرا ہوناپڑے گا اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیراعظم عمران خان کی توجہ اب سینٹ میں چئیرمین کی نشست پر اپنے حمایت یافتہ امیدوار صادق سنجرانی کو کامیاب کروانا ہے جنکے مقابلے میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ہیں جن کی جیت پر اسلام آباد کی سیاست میں بھونچال آگیا اور اپوزیشن جماعتوں کو اسلام آباد میں کرسی اقتدار نظر آنے لگا تاہم عمران خان کی سیاسی بصیرت کے آگے اپوزیشن اتحاد سب تدبیریں ناکام رہی۔وزیراعظم کو ایوان کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے 172 ووٹ درکار تھے۔اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی صدارت میں قومی اسمبلی یعنی ایوان زیریں کا خصوصی اجلاس دن سوا 12 بجے شروع ہوا تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول ﷺ کے بعد قومی ترانا پڑھا گیا۔قومی ترانہ پر سب ممبران نے عقیدت کے ساتھ ھم آواز ہو کر قومی ترانہ پڑھا ۔وزیراعظم عمران خان سفید شلوار قمیض اور واسکٹ میں ملبوس ایوان میں موجود ممبران سے ان نشستوں پر جا کر بھی ملے گزشتہ دنوں کی نسبت وہ زیادہ پر اعتماد دکھائی دیئے اور ان چہرے پر مسکراہٹ نظر آئی اور ایک لمحے کے لیے بھی وہ پریشان نظر نہیں آئے بلکہ تسبیح پڑھنے میں مصروف رہے ،وزیراعظم کے اعتماد کے ووٹ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر ہونے والے اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایوان میں قراداد پیش کی۔قرارداد میں کہا گیا کہ ‘یہ ایوان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان پر اعتماد بحال کرتی ہے جیسا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 91 کی شق (7) کے تحت ضروری ہے‘۔وزیر خارجہ کی جانب سے قرارداد پیش کیے جانے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اراکین کو طریقہ کار سے متعلق بتایا اور ایوان میں اراکین کو آنے کے لیے گھنٹیاں بجائی گئی۔بعدازاں ایوان کے دروازے بند کردیے گئے اور اراکین کو اعتماد کا ووٹ دینے کے لیے لابی میں جانے کی ہدایت کی گئی۔ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد گنتی کی گئی اور اسپیکر قومی اسمبلی نے اعلان کیا کہ اگست 2018 میں عمران خان نے ایوان سے 176 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ آج کے اس خصوصی اجلاس میں، جس میں اعتماد کا ووٹ دیا گیا، وزیراعظم نے ایوان کے 178 ارکان کے ووٹ حاصل کرلیے۔اس طرح وزیر خارجہ کی پیش کردہ قرار داد منظور کرلی گئی۔وزیراعظم کے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد ایوان نعروں سے گونج اٹھا اور اراکین اسمبلی کی جانب سے ڈیسک بجا کر وزیراعظم کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔اس موقع پر کراچی سے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین نے ایوان میں وزیراعظم کے اعزاز میں قصیدے پڑھے۔عامر لیاقت نے عمران خان کی مدح سرائی میں اشعار پڑھے کہ :
‘’مجھ کو کرسی کی چاہ نہیں ہے، مجھ کو سنتا ہے جو وہ سمیع ہے، اپنے عمران کو تنہا نہ چھوڑیں، آرہا ہوں میں آقا مدینہ”‘۔ قومی اسمبلی کے رکن اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے پر مبارک باد دی اور کہا کہ آپ کو ایوان نے اعتماد دیا ہے، ہم نے آپ کو اعتماد دیا ہے اب آپ وقت پر اس ایوان کو اعتماد دیں۔اس موقع پر شیخ رشید نے کہا کہ میں نے سیاست میں لوگوں کو اپ سیٹ کرتے دیکھا ہے مگرخدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں عمران خان نے جس طرح اس ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے محنت کی ہے آج تک کسی اور نے اتنی محنت نہیں کی۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے غریب عوام کے لیے عزم اٹھایا اور احساس پروگرام کے ذریعے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو 200 ارب روپے پہنچایا مگر بدقسمتی سے ہم اس اقدام کو اجاگر نہیں کرسکے۔ وزیر اعظم نے پلوامہ کی جنگ میں بین الاقوامی سطح پر دانشمندی سے اس کھیل کو خراب ہونے سے بچایا ہے۔شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ‘ہماری افواج کے ساتھ 42 ملکوں نے بحری مشقیں کی ہیں اور ہماری عظیم افواج 15ویں نمبر سے 10ویں نمبر پر آگئی ہے جس کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے’۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اقتدار کے دن فوری گزرتے ہیں مگر اپوزیشن میں دن بہت مشکل سے گزرتے ہیں۔شیخ رشید نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘اقتدار کے ڈھائی سال گزرگئے ہیں، عمران خان آپ کو نئی سیاسی زندگی ملی ہے تنخواہ پیشہ افراد کا گزارا نہیں ہورہا ان کے لیےکچھ کریں’۔شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے کان پک گئے ٹیکس چھوٹ کا سن سن کر، یہ صنعتکار کبھی کسی کے نہیں ہوتے خدارا اب غریب عوام کے لیے کچھ کریں۔شیخ رشید نے کہا کہ ‘اللہ نے آپ کو موقع دیا ہے، ان باقی کے ڈھائی سالوں میں پسے ہوئے مظلوم لوگوں اور غریب عوام کو لے کر چلیں خدا آپ کو اور آگے لے کر چلیں گے’۔وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ‘عمران خان آپ نے ختم نبوت کے سلسلے میں اس ملک میں جس طرح اللہ کے نبی کا جھنڈا بلند کیا ہے، دعا ہے کہ خدا آپ کا جھنڈا بھی بلند کرے’۔ تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کےایک سوپچھتر سے زائد ارکان نے اسمبلی ہال میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا اور اپنی نشستوں پر براجمان وکٹری کا نشان بنا کر اپنی جماعت سے اظہار یکجہتی کرتے نظر آئے ہیں حالانکہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کےاہم اجلاس کابائیکاٹ کررکھا تھا قومی اسمبلی کے اجلاس میں اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کے اراکین شریک نہیں تھے تاہم ایوان میں یہ دیکھنے کو ملا کہ اپوزیشن کی نشستوں پر ”نوٹ کو عزت دو کے” نعرے لکھے ہوئے پلے کارڈ رکھ دیے گئے تھے۔خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں حکمران جماعت اور اتحادیوں کی تعداد کو دیکھیں تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 156، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے 7، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 5، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے 3، عوامی مسلم لیگ کی ایک، بی اے پی کے 5 اور جے ڈبلیو پی کا ایک رکن ہے جبکہ 2 آزاد اُمیدوار بھی حکمران اتحاد کا حصہ ہیں۔دوسری جانب اپوزیشن کے اراکین کی مجموعی تعداد 160 ہے جس میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی تعداد 83، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے اراکین کی تعداد 55، ایم ایم اے کے 15، اے این پی کا ایک، بی این پی ایم کے 4 جبکہ 2 آزاد امیدوار بھی اپوزیشن کا حصہ ہے۔واضح رہے کہ سینیٹ انتخابات میں اپ سیٹ شکست کے بعد وزیراعظم عمران خان نےاپنے اراکین سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا اعلان کیاتھا,رواں ہفتے ہونے والے سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی نشست پر اپ سیٹ شکست کے بعد سامنے آیا تھا۔3 مارچ کو ایوان بالا کے انتخابات میں اسلام آباد کی جنرل نشست پر حکومتی اتحادی امیدوار حفیظ شیخ کو اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی سے شکست ہوئی تھی اور حکومت ایوان زیریں میں اکثریت رکھنے کے باوجود یہ نشست ہار گئی تھی۔
حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کو 164 ووٹ ملے تھے جبکہ یوسف رضا گیلانی 169 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتی اتحاد کے اراکین قومی اسمبلی نے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو وٹ دیے تھے۔ یاد رہے کہ 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی وزیراعظم کی جانب سے اس طرح کا قدم اٹھایا گیا۔اس سے قبل قانون کے تحت ہر وزیراعظم کو اپنے منتخب ہونے کے 30 دن کے اندر اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا ضروری تھا اورماضی میں بیظیر بھٹو، نواز شریف اوردیگر وزرائے اعظم کو اپنے انتخاب کے بعد یہ ووٹ لینا پڑا تھا۔تاہم 2010 سے قانون میں اس قسم کی پریکٹس کی ضرورت نہیں، درحقیقت آئین کے آرٹیکل 91 کی شق 7 کے مطابق صدر اس وقت تک اپنے اختیارات کا استعمال نہیں کرے گا جب تک اسے یہ اطمینان نہ ہو کہ وزیراعظم کو قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں ہے‘۔قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس ہوا تھا حکمران اتحاد کے 179 اراکین میں سے 175 نے وزیراعظم عمران خان کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ایوان زیریں کے خصوصی اجلاس کے دوران انہیں اعتماد کا ووٹ دیں گے۔حکمران اتحاد کے تمام اراکین قومی اسمبلی کو کہا گیا تھا کہ وہ وزیراعظم کے لیے ووٹ دیں بصورت دیگر وہ ڈی سیٹڈ ہوسکتے ہیں۔ اجلاس میں وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی، عامر لیاقت حسین، غلام بی بی بھروانہ، باسط سلطان اور مونس الٰہی شرکت نہیں کرسکے تھے۔وزیراعظم عمران خان اعتماد کا 178 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے ،اضح رہے کہ اس سے قبل 2018میں عمران خان کو 176ووٹ ملے تھے۔. فیصل واڈا کے استعفیٰ دینے اور این اے 175 ڈسکہ کی نشست پر دوبارہ اتنخابات کے بعد قومی اسمبلی میں حکومت کی 179 نشستیں ہیں اور وزیراعظم کو 341 اراکین کے ایوان کے اعتماد حاصل کرنے کے لیے کم از کم 172 ووٹس درکار تھے قرارداد منظور ہونے پر وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی سے خطاب میں ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا کہ کرپٹ سیاستدانوں کو ہرگز این آر او نہیں ملے گا