لاہور (ویب ڈیسک) گزشتہ پیر کو فرانس کے ایک شہر میں سات بڑے ملکوں کے رہنما ملے اور اُمید کی جا رہی تھی کہ وہاں نریندر مودی سے کشمیر کو ہڑپ کرنے کے حوالے سے کڑے سوالات ہوں گے اور اُنہیں مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن ختم کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اِس ضمن میں امریکی صدر ٹرمپ نامور کالم نگار الطاف حسن قریشی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔سے بڑی توقعات وابستہ کی گئی تھیں کیونکہ اُنہوں نے 22جولائی کی صبح وزیرِاعظم پاکستان کے ہمراہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں یہ انکشاف کیا تھا کہ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے مجھ سے خود مسئلۂ کشمیر پر ثالثی کے لئے درخواست کی تھی۔ اسے ہماری حکومت نے بہت بڑی سفارتی فتح قرار دیا تھا جبکہ دانش مند طبقے اسے ایک سیاسی ڈرامہ خیال کر رہے تھے۔ اس کی جی سیون سربراہ کانفرنس میں تصدیق ہو گئی۔ کانفرنس کی سائیڈ لائن پر صدر ٹرمپ نے وزیرِاعظم مودی سے ملاقات کی اور مسئلۂ کشمیر پر ثالثی کی بات چھیڑی تو مودی نے برملا کہا یہ دوطرفہ معاملہ ہے جس میں تیسری پارٹی کو دخل دینے کی ضرورت نہیں۔اسی شام ہمارے وزیرِاعظم نے قوم سے خطاب کیا۔ لوگ فطری طور پر اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ وہ تفصیل سے بتائیں گے کہ حکومت کی کشمیر پالیسی کیا ہے اور اس نے اہداف تک پہنچنے کے لئے کیا جامع حکمتِ عملی طے کی ہے۔ جناب عمران خان نے حسبِ روایت ایک دھواں دھار تقریر کی۔ اُنہوں نے مژدہ سنایا کہ متکبر مودی سے جو حماقت سرزد ہوئی ہے، اس نے کشمیریوں کو آزادی کا ایک سنہری موقع فراہم کر دیا ہے۔ اُن کے لہجے میں بڑا اِستحکام تھا اور اُن کے خطاب میں قوتِ ایمانی کا زبردست اظہار ہو رہا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میں کشمیر کا سفیر ہوں اور کوئی ہمارا ساتھ دے یا نہ دے، ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور منزلِ مراد تک پہنچ کر دم لیں گے۔ آخر میں اُن کی طرف سے اعلان ہوا کہ میں 27ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کروں گا اور بھارت کا مکروہ چہرہ پوری طرح بے نقاب کروں گا جس کے بعد وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔اِس خطاب پر سر دھننے والے بھی کم نہ تھے اور وہ بھی جن کے ہاتھ کوئی سِرا نہیں آیا تھا۔ غیر جانبدار مبصرین کی رائے میں اِس تقریر کی تیاری پر خاص توجہ نہیں دی گئی تھی۔ زیادہ تر اُنہی خیالات کا اعادہ کیا گیا تھا جو عمران خان کے ذہن میں راسخ ہیں۔ وہ یہ بات کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اگر ایٹمی جنگ ہوئی تو دونوں ملک صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گے، اِس لئے عالمی برادری کو کشیدگی ختم کرانے میں مؤثر کردار ادا کرنا چاہئے۔ ریاستِ مدینہ کا ذکر بھی وہ بار بار کر چکے ہیں اور علمی حلقے اب یہ سوال پوچھنے لگے ہیں کہ اس کا مسئلۂ کشمیر سے کیا تعلق ہے۔ اِسی طرح اُن کا یہ جملہ سینکڑوں بار سنا ہے کہ وہ این آر او نہیں دیں گے۔ اُنہوں نے اپنے قومی خطاب میں اپنی سیاسی کامیابی کا راز بھی فاش کر دیا جس پر سنجیدہ طبقے انگشت بدنداں رہ گئے۔ فرمایا: میں یوٹرن لیتے لیتے اقتدار تک پہنچا ہوں۔ ایسی ڈھیلی ڈھالی تقریر سننے کے بعد اپوزیشن کی طرف سے شدید ردِعمل آیا کہ ہمارے حکمران مسئلۂ کشمیر حل کرانے کی اہلیت رکھتے ہیں نہ اُنہیں اِس امر کا ادراک ہے کہ عالمی رائے عامہ میں تحرک پیدا کرنے کے کیا کیا تقاضے ہیں۔ ہماری اپوزیشن بھی جب حکومت کو حرفِ تنقید بناتی ہے تو اعتدال کے بجائے مبالغہ آرائی سے کام لیتی ہے۔ ہر وقت دنیا کے سامنے ایک تماشا بنے رہنے کے بجائے ہمیں قومی یکجہتی اور ہم قدمی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ مقبوضہ کشمیر کے دل دہلا دینے والے حالات ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ کشمیری بھائیوں اور بہنوں کو لاک ڈاؤن کے عذاب سے جلد از جلد نجات دلائی جائے۔ آرٹیکل 370اور 35-Aبحال کرائے جائیں، مقبوضہ کشمیر سے بھارتی فوجوں کو نکلنے پر مجبور کیا جائے اور کشمیریوں کا حقِ خودارادیت کی جدوجہد میں پورا پورا ساتھ دیا جائے۔ اِس کے لئے ہمیں عالمی طاقتوں کو ہمنوا بنانا اور عالمی رائے عامہ کو مسلسل بیدار رکھنا ہو گا۔ اب تک جو کوششیں ہوئی ہیں، ان سے برف پگھلی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا نے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن بھارتی قیادت عالمی دباؤ محسوس نہیں کر رہی۔ وزیرِاعظم مودی کی رعونت اور تکبر میں اضافہ ہوا ہے اور متحدہ عرب امارات اور بحرین میں جو اُنہیں پذیرائی ملی ہے، اِس سے اُن کی ہٹ دھرمی میں پہلے سے کہیں زیادہ شدت آ گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا لاک ڈاؤن چوتھے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے اور آٹھ ہزار سے زائد نوجوان گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ اِن تلخ حقائق کے پیشِ نظر پاکستان کو اپنی سفارتی اور ابلاغِ عامہ کی پالیسی میں جارحانہ انداز اختیار کرنا ہو گا۔پالیسیوں میں تبدیلی لانے کے ساتھ ساتھ سیاسی ہم آہنگی اور معاشی توانائی کے حصول پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ قومی اتحاد اور یکجہتی کے بغیر آپ کوئی بڑا قدم نہیں اُٹھا سکتے۔ حکومت نے فوکل کمیٹی میں جناب سراج الحق، جناب مشاہد حسین اور جناب نوید قمر کو شامل کر کے بلند نگاہی کا ثبوت دیا ہے۔ اب جبکہ ہم 1971ء کے سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد سب سے گمبھیر چیلنج سے دوچار ہیں تو اپوزیشن کی قیادت کا جیلوں میں بند رہنا ہماری داخلی قوت میں ضعف پہنچانے کا باعث بنا ہوا ہے۔ تاریخ ان لوگوں کو معاف نہیں کرے گی جو اِس نازک مرحلے میں انتقامی سیاست سے دستبردار نہیں ہوتے۔ کتنا اچھا ہو کہ ایک بڑی ریلی کی مشترکہ قیادت جناب عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کریں۔ وہ ایک تاریخ ساز لمحہ ہوگا تبھی ہماری معیشت نئی کروٹ لے گی۔ پورا ماحول یکسر تبدیل ہو جائے گا اور اعتماد کے غنچے کھلنے لگیں گے۔ اِس کے بعد جب پوری تیاری کے ساتھ وزیرِاعظم پاکستان دنیا کے سب سے بڑے ادارے سے 27ستمبر کو خطاب کریں گے تو زبردست ارتعاش پیدا ہوگا اور بھارت کے اندر ان طاقتوں کو بڑی تقویت پہنچے گی جو مودی کی سرکشی کے خلاف بڑی مردانگی سے ڈٹی ہوئی ہیں۔ مودی نے 370اور 35-Aکو منسوخ کر کے اُن نو ریاستوں کے اندر بھی تشویش کی لہر دوڑا دی ہے جنہیں آئین میں خصوصی حیثیت دی گئی ہے۔ اِسی طرح بھارت کی مختلف ریاستوں میں نیکسلائٹ تحریک بہت زوروں پر ہے جہاں بغاوت کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔ بھارت کے اندر سے اُٹھنے والی آوازیں آگے چل کر فیصلہ کن ثابت ہوں گی، اِس لئے پاکستان کو اُن سے رابطے مضبوط کرنا اور اُن کی ہمت بندھانا چاہئ