تحریر: انجینئر افتخار چودھری
آج میڈیا کے ساتھ مکھنیال ریسٹ ہائوس گیا عمران خان ایک ارب درخت لگانے کے سلسلے میں اس جگہ پہنچے جو میرے گائوں سے چند کلو میٹر پر واقعہ ہے،یہ وہی جگہ ہے جہاں ہمارے بزرگ جب پیدل نلہ جبری سے پنڈی آیا کرتے تھے آج یہاں اسلام آباد سے میں وہاں گیا۔درخت سونامی شروع میں مجذوب کی ایک بڑھ تھی ہمیں بھی نہیں یقین تھا لیکن آج سیکریٹری جنگلات جب عمران خان اور میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے تو ان کا بھی کہنا تھا کہ اب ناممکن ممکن بنتا دکھائی دے رہا ہے اس سارے کام کے پیچھے ایک شخص جس کا نام امین اسلم ہے وہ تھے ظاہر ہے اکیلے ان کے بس کی بات نہ تھی۔
ان کے ساتھ ایک ٹیم تھی جس نے کار نا ممکن کو کر کے دکھا دیا۔میرا جی چاہتا تھا کہ آج چھج پتاسے بانٹوں اس لئے کہ یہ وہ کام ہے جو آنے والی نسلوں کے لئے ہے عمران خان کو علم تھا کہ یہ چیڑ کے درخت شائد اس کی زندگی میں جوان نہ ہوں لیکن اس نے وہ کام کیا جو ہمارے پرکھوں نے ہمارے لئے کیا ۔اس کارکار آمد کو آج میڈیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا مکھنیال کے حسین مقام پر جنگل کی طرف ایک باڑ لگا دی گئی ہے وہاں کے پی کے حکومت نے نگہبان مقرر کر دیے ہیں جو بکریوں اور دیگر مال مویشیوں کو جنگل میں جانے دیتے۔یہ خود رو پودوں کو بچانے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔
مجھے پرانے دن یاد آ گئے جب اس علاقے میں ٹمبر مافیا کا راج تھا جنگل کے سپاہی سے لے کر فارسٹر رینج آفیسر سب مل جل کر اس علاقے کے جنگل ہڑپ کر جاتے تھے۔ چیڑ کے درختوں سے بھرا یہ علاقہ پیر سوہاوہ ٹاپ سے نیچے ہرو تک جاتا ہے جس مین نلہ جبری بدھار کے علاقے شامل ہیں۔انہی جنگلوں میں گھاس پھوس کے لئے سخت گرمیوں میں آگ لگا دی جاتی تھی۔
عمران خان نے پاکستان میں وہ کام کر دکھانے کی ٹھانی ہے جو کوئی دوسرا نہیں کر سکا وہ جب میڈیا سے گفتگو میں انہیں یہ بتا رہے تھے کہ پنجاب کے مصنوعی جنگل چھانگا مانگا سے ستر ہزار درخت کاٹ کر غائب کر دیے ہیں تو مجھے ١٩٧٢ کا چھانگا مانگا یاد آ گیا جو ایک گھنا جنگل تھا ایک خوبصورت جھیل تھی میں سوچ رہا تھا یہ نیلی پیلی ٹرینیں چلانے والے اس ملک کو کیا ٹنڈ منڈ کر کے رکھ دیں گے۔
شائد کچھ لوگ اس ملک کے میدانوں اور جنگلوں کو بھی اپنے سروں کی مانند کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے نعیم الحق صاحب کی اس ٹویٹ کا پیغام بھی یاد پڑتا ہے جس میں انہوں نے اسلام آباد میں ہزاروں درختوں کے ضائع ہونے کا رونا رویا تھا۔میں نے دنیا کے خوبصورت شہر دیکھے ہیں اکثر میں تین تہائی جنگل ہوتے ہیں اور ایک تہائی میں آبادی ہوتی ہے ۔گئے سالوں میں اسلام آباد کی جنڈ مونڈھ دی گئی ہے اور اب یہ شہر جو گئے وقتوں میں ہرا بھرا تھا اب ٹنڈ منڈ سا ہو کے رہ گیا ہے۔
مکھنیال کے جنگلوں میں چیڑھ کے درختوں کے نیچے چھوٹے منے سے درخت جگنو جیسے تھے جس سے پاکستان کا مستقبل وابستہ دکھائی دیا۔علاقے کے چند نمائینڈے بھی موجود تھے جس میں ضلع ناظم ،یوسف ایوب اور لوکل لوگ بھی تھے ظہور عباسی پی ٹی آئی کے متحرک منتحب وائس چیئرمین ہیں انہیں اسکول کے عملے کی کمی کی شکائت تھی عاطف خان پی ٹی آئی کے بڑے متحرک وزیر ہیں ان سے میں نے ہلی کے اسکول کی بات آگے بڑھائی صوبائی وزیرعاطف خان نے فوری منظوری دی۔ جس کے لئے ان کا مشکور ہوں۔
جنگل میں آج منگل رہا ۔عمران خان کی باتیں کیا تھیں وہ ایک روشن اور گرین پاکستان کی بات کر رہے تھے سچی بات ہے جب وہ کندیاں چیچہ وطنی چھانگا مانگا راجن پور کے جنگلوں کی بربادی کے قصے سنا رہے تھے تو میرا دل سننے کو نہین چاہ رہا تھا کہاں پی ٹی آئی اور کہاں نون لیگ جس کا منشور ہی ملک کے نصیبوں کو جلانا ہے۔پی ٹی آئی نے ان لوگوں کے منہ بند کر دیے جب wwfکے نمائندے نے یہ کہہ کر دل خوش کر دیا کہ ہم کے پی کے حکومت کے اس اقدام کو کامیابی کا سرٹیفیکیٹ دیتے ہیں۔مجھے فیس بک پر چلتا ہوا وہ اسٹکر یاد آ گیا کہ جائو جا کر عمران خان کو کہہ دو کہ ارب درختوں کی سونامی کہیں اور جا کر لگائے۔مجھے جناب اخونزادہ چٹان سے بھی کہنا ہے کہ آئیں اور دیکھیں کہ عمران خان کتنا سچا ہے۔
بس ایک بات جان کر دکھ ہوا کہ یہ علاقہ انتہائی پسماندہ ہے بجلی بھی پوری طرح نہیں پہنچی اسے پسماندہ علاقہ قرار دے کر خصوصی گرانٹ دی جائے۔میں نے پرویز خٹک سے کھل کر بات کی کہ درخت بوٹے اپنی جگہ اس علاقے کو کالج اسکول ہسپتال دیں۔وہی پرانا رونا کہ فنڈ نہیں ہیں۔نہیں حضور فنڈ صرف نوشہرہ صوابی مردان اور پشاور کے لئے نہیں ہزارہ کو بھی دیجئے گا۔آج عامر زمان نظر نہیں آئے یہ بھی اچھا شگون نہیں ہے ہم عامر زمان کے جنگلات میں میں بوٹے لگا رہے تھے ان کی عدم موجودگی کا احساس ہوا راجہ قاسم نے بھی یاد کرایا کیا ہی اچھا ہوتا کہہری پور اور ایبٹ آباد کے سنگم پر ہونے والی اس تقریب میں شیر بہادر بھی ہوتے۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم آپس میں ہی لڑتے رہتے ہیں۔انٹرا پارٹی ٢٠١٣ کی دشمنیاں اب جوان ہو رہی ہیں۔بہت سے بہت سوں کا منہ بھی نہیں دیکھنا چاہتے۔کاش ہم ان درختوں سے ہی سیکھ لیں جو مل جل کر آندھی اور طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔اگر ایسا نہ ہوا تو لکھ لیں ہم آنے والے انتحابات میں ہزارہ کھو بیٹھے گیں۔فیلفور گروپ آف ایلڈرز کی تشکیل دے کر پارٹی کے اختلافات کا خاتمہ کیا جائے۔ اس تقریب میں ایک شہید نگہبان کے بیٹے کو بھی ملوایا گیا۔اس کا باپ ان درختوں کی حفاظت میں مارا گیا۔
گئے وقتوں میں ان راستوں پر میرے والد بھی چلا کرتے تھے آج انہی ٹیڑھے میڑھے راستوں پر میں بھی تھا درخت تھے پہاڑ تھے اور عمران خان تھے ان کے چاہنے والے اور ہمارے میڈیا کے دوست تھے جن کا ساتھ ہمیشہ ہی لاجواب رہا۔واپسی پر سنگڑہ گلی میں گڑ والی چائے پی اور قمر زمان چودھری کو یاد کیا جو صرف ١٢٥ ووٹوں سے ہار گیا ورنہ آج ظہور عباسی کے اس کی سربراہی میں ہمیں ملتا۔اس نے اللہ کی زمین پر بوٹا لگایا تو دل پکاراٹھا عمران خان تیرا اللہ ہی بوٹا لائے گا۔
تحریر: انجینئر افتخار چودھری