اسلام آباد (ویب ڈیسک) رواں مالی سال حکومت نے 10 سرکاری اداروں کی نجکاری کا منصوبہ تیار کرلیا، فہرست میں نندی پور پاور پلانٹ، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ اور ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن بھی شامل ہیں۔تحریک انصاف کی حکومت پہلے سال نج کاری کے میدان میں ناکام رہی، گذشتہ مالی سال ایک ادارہ کی بھی پرائیورٹائیزیشن نہ ہوسکی مگر اب حکومت نے دو تین نہیں بلکہ ایک ساتھ 10 اداروں کی نجکاری کا منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے۔وزارت خزانہ کے مطابق 425 میگا واٹ کا نندی پور پاور پلانٹ، 745 میگا واٹ کا گدو پاور پلانٹ، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ، گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی، پاکستان ری انشورنس کارپوریشن، فرسٹ ویمن بینک، ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، پاکستان انجینئرنگ اور سندھ انجینئرنگ لمیٹڈ کی نجکاری رواں مالی سال کردی جائے گی۔تجزیہ کاروں کے مطابق معیشت میں بہتری آنے سے ان کمپنیوں کے حصص کی مالیت بھی بڑھنے کا امکان ہے، اس لئے حکومت کو حالات میں بہتری کے بعد درست وقت میں نجکاری کا فیصلہ کرنا ہوگا۔یاد رہے تحریک انصاف کی حکومت 200 کے قریب سرکاری اداروں کی نجکاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس مقصد کے لئے پہلے ان اداروں کو ایک ویلتھ فنڈکے سپرد کیا جائے گا جس کا کنٹرول حکومت کی بجائے نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کے پاس ہو گا اورپھر ان اداروں میں کانٹ چھانٹ کرنے کے بعد ان کی بولی لگا کر انہیں ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں کے ہاتھ بیچ دیا جائے گا۔واضح رہے کہ یہاں کانٹ چھانٹ سے مراد بڑے پیمانے پر ڈاؤن سائزنگ اور مزدور یونینوں پر پابندی ہے۔نجکاری کے لئے پیش کئے جانے والے اداروں کی فہرست میں واپڈا، ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل، سوئی گیس پائپ لائینزلمیٹڈ، پی ایس او، او جی ڈی سی ایل، پوسٹ آفس سمیت کئی سرکاری ادارے شامل ہیں۔اس کے علاوہ حکومت صحت اور تعلیم کے شعبے میں’ اصلاحات‘ کے نام پربے شمار سرکاری ہسپتال اور تعلیمی ادارے بیچنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ نجکاری پروگرام کے حوالے سے ایک عام بولا جانے والا حکومتی مؤقف یہ ہے کہ نجکاری کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم سے حکومتی قرضے (خصوصاً بیرونی قرضے) اد ا کر کے ان سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ 1991ء سے لیکر اب تک پاکستان میں بے شمار بڑی سرکاری صنعتوں، بینکوں اور اداروں کی نجکاری کی جا چکی ہے جس میں حبیب بینک لمیٹڈ، الائیڈ بینک لمیٹڈ، یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، مسلم کمرشل بینک، ڈی جی سیمنٹ، اٹک آئل ریفائنری، پاک سعودی اور پاک عرب فرٹیلائیزز، کیپکو، کے الیکٹرک، ملت ٹریکٹرز، غازی ٹریکٹرز اور پی ٹی سی ایل نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے اہم تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں سمیت درجنوں اداروں کی نجکاری کی گئی ہے جبکہ جن اداروں کومکمل طور پر بیچا نہیں جا سکا وہاں جزوی طور پر نجکاری کر دی گئی ہے جیسے ریلوے میں پرائیویٹ کمپنیوں کو ٹرین چلانے کی اجازت سے لے کر واسا اوردیگر اداروں کو ٹھیکیداری نظام کے تحت دیا گیا ہے۔ اسی طرح نجکاری کی ہی پالیسی کے تحت بجلی کی پیداوار نجی کمپنیوں کی دی گئی جس کے باعث سرکلر قرضوں اور لوڈ شیڈنگ کا عذاب عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔نجکاری کمیشن کی سرکاری ویب سائیٹ کے مطابق ان اداروں کی نجکاری سے حاصل ہونے والی رقم کا 90فیصد قرضوں کی واپسی کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس تمام عرصے میں پاکستان کے حکومتی قرضوں (ملکی اور بیرونی دونوں) میں کمی ہونے کی بجائے بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اورا س وقت کل حکومتی قرضہ جی ڈی پی کے 70فیصد سے زائد ہو چکا ہے۔ مزید براں تبدیلی کی دعوے دار یہ نئی حکومت بھی آئی ایم ایف،ورلڈ بینک،چین اور سعودی عرب سے دسیوں ارب ڈالر مزید قرضہ حاصل کرنے کے لئے پر تول رہی ہے