لاہور (ویب ڈیسک) گزشتہ ہفتے مولانا فضل الرحمان صاحب کے زیر سرپرستی آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی۔ مولانا صاحب‘ جو خود اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ کی زیر قیادت اس اجتماع کے شرکا اپنی کانفرنس کو کامیاب کہلوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ جتنی زیادہ کوشش کر رہے ہیں‘ نامور کالم نگار طارق سہیل اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ان کا بیانیہ اتنا ہی مضحکہ خیز صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ چلیں پہلے اسی بات کا جائزہ لے لیتے ہیں کہ آیا یہ آل پارٹیز کانفرنس تھی بھی یا نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ روایتی طور پر جب حکومتی جماعت کے علاوہ ساری جماعتیں شرکت کریں تو اسے آل پارٹیز کانفرنس کہا جاتا ہے۔ یہاں ہر پارٹی سے مراد پی ٹی آئی کے سوا ہر جماعت ہے۔ اس کانفرنس میں پی ٹی آئی کی اتحادی کسی جماعت نے شرکت نہیں کی‘ بلکہ اس سے بھی بد تر منظر نامہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی مخالف جماعت اسلامی نے بھی اس اجتماع میں شرکت نہیں کی۔ ان حالات میں بعض اپوزیشن رہنمائوں کی ملاقات کو ”چند پارٹی کانفرنس‘‘ (Few Parties Conference) ہی کہا جا سکتا ہے۔ تخیل کی تمام تر پرواز کے باوجود اسے آل پارٹیز کانفرنس کہنا ممکن نہیں۔ اسے آل پارٹیز کانفرنس قرار دینے کا مطلب بر صغیر میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنسز کا مذاق اڑانے کے مترادف ہو گا‘ جن میں 1929ء میں آغا خان کی زیر سرپرستی دہلی میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس بھی شامل ہے۔چلیں اسے آل پارٹیز کانفرنس مان بھی لیں تو بھی اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ اس چند پارٹی کانفرنس کے شرکا کون کون تھے اور وہ کسی ایسے ایجنڈے پر متفق کیوں نہ ہو سکے جس کی مدد سے پی ٹی آئی حکومت کو ختم کیا جا سکے۔ اس سوال کی بہتر تفہیم کے لئے مناسب ہو گا کہ شرکا کو ان کے مطالبات اور مفادات کی روشنی میں جانچ لیں۔ ہم شروع ہی مولانا صاحب سے کرتے ہیں۔ ان کے دکھ کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں ہے۔ گزشتہ دو عشروں میں یہ پہلا موقع ہے کہ وہ پارلیمنٹ سے باہر ہیں اور کسی حکومتی بیانیے میں ان کی آواز شامل نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ پی ٹی آئی نے حالیہ الیکشن میں انہیں ان کی آبائی سیٹ سے شکست فاش دی ہے۔ نیز یہ کہ مولانا صاحب کے موقف کے بر خلاف فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام سے ان کی سیاست کو اور بھی شدید دھچکا لگا ہے؛ چنانچہ مولانا کی شدید خواہش ہے کہ ان کے ہاتھ جادو کی کوئی ایسی چھڑی لگے‘ جو گزشتہ سال کے واقعات کو ان کی سیاست سے حرف غلط کی طرح مٹا دے۔ وہ بہر صورت عمران خان کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اسے قصۂ پارینہ بنانا چاہتے ہیں۔ مگر بات یہیں تک محدود نہیں ہے۔ وہ عمران خان کو پریشان اور مشکلات میں گھرا دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں ذلت و رسوائی کے دلدل میں گھسیٹنا چاہتے ہیں۔ مگر ان کی بد قسمتی کہ کانفرنس کے دیگر شرکا ان کے اس موقف سے متفق نہیں ہوئے۔عمران خان صاحب اور ان کی حکومت سے مولانا کی شدید نفرت میں دوسری حصے دار مریم صفدر تھیں۔ اس کانفرنس میں آتے ہوئے مریم صفدر کے پیش نظر تین مقاصد تھے۔ اول: تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے سخت موقف اپنانے کی کوشش کرنا، دوئم: نواز شریف کی رہائی کے لئے کسی عوامی تحریک کی راہ ہموار کرنا، سوئم: اپنے چچا شہباز شریف کے برعکس پارٹی کے اندر اپنے سیاسی بیانیے کو تقویت دینا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ اپنی راہ میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ بشمول اپوزیشن حتیٰ کہ شہباز شریف سے بھی ٹکرانے کے لئے تیار ہیں۔ سچ پوچھیں تو وہ اپنے پہلے دونوں مقاصد میں تو کامیاب نہیں ہو سکیں‘ مگر خود کو مسلم لیگ نون کی سب سے موثر اور مقتدر آواز تسلیم کروانے میں کامیاب رہی ہیں‘ یعنی نواز شریف کی حقیقی سیاسی وارث اور ایسی سیاست دان جو محاذ آرائی کو اپنی سیاسی سٹریٹیجی کے طور پر استعمال کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ پی ایم ایل این میں قیادت کے دوسرے دعوے دار شہباز شریف ہیں‘ جو مولانا اور مریم صفدر کے برعکس لچک دار رویے کے حامی ہیں۔ اس کانفرنس میں وہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے حامی تھے‘ مگر وہ محاذ آرائی کی سیاست سے حکومت کی برطرفی کے لئے زیادہ بے چین نہیں تھے۔ اس سارے عرصے میں ان کی ایک نظر اس حقیقت پر تھی کہ انہیں کرپشن کے الزامات کا سامنا بھی ہے جو کہ آئندہ چند دنوں میں ایک ریفرنس کی صورت میں ڈھلنے والے ہیں اور ضمانت کے احکامات کے بعد بھی شاید انہیں حراست کا سامنا کرنا پڑے۔ ان کے سیاسی وارث حمزہ شہباز شریف پہلے ہی گرفتار ہیں۔ دوسرے بیٹے سلمان شہباز ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن امر یہ ہے کہ ان کے بیانیے ”میثاقِ معیشت‘‘ کو ان کی اپنی جماعت کے اعلیٰ حلقوں میں کوئی خاص پذیرائی نہیں مل سکی۔ اور اپنے بھائی کے برعکس وہ پارلیمنٹ میں بھی بیٹھے ہیں۔ موجودہ حکومت کی جانب سے ان کے پروڈکشن آرڈرز جاری ہونا ایک بہتر اور قابل قبول سہولت ہے۔ ان حالات میں وہ مولانا صاحب کے سڑکوں پر نکلنے کے مطالبے کی حمایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ اگر فیصلہ شہباز شریف صاحب کے ہاتھ میں ہوتا تو احتساب کی موجودہ لہر میں کچھ ریلیف حاصل کرنے کے لئے وہ حکومت کی در پردہ حمایت کرتے نظر آتے۔شہباز شریف کی محاذ آرائی سے گریز کی سیاست میں ان کے دوسرے ہم نوا بلاول زرداری تھے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے لئے اصل مسئلہ آصف علی زرداری کی گرفتاری ہے مگر وہ کوئی ایسی ڈیل بھی نہیں کرنا چاہتے جس میں ان کی سندھ میں گرفت کمزور پڑ جائے۔ وہ نوجوان ہیں اور مستقبل میں حکومت بھی بنا سکتے ہیں۔ بلاول کے لئے فوری مشکل یہ ہے کہ کسی طرح احتساب کے نام پر گرفتاریوں سے بچا جائے جو جلد پورے سندھ کو اپنی لپیٹ میں لینے والی ہیں۔ اومنی گروپ کی دگرگوں صورت حال ان کے لئے ایک شدید دھچکا ہے مگر اب بلاول کی کوشش ہو گی کہ اس وقت سندھ میں جو کچھ ان کے پاس ہے اسے بچایا جائے۔ اگر وہ مولانا صاحب کی اجتماعی استعفیٰ دینے اور محاذ آرائی کی کال کی حمایت کرتے ہیں تو وہ یہ سب کچھ نہیں کر سکیں گے۔ بلاول کے لئے زیادہ پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ سندھ کے معاملات مالی احتساب سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ لیاری گینگ وار اور عزیر بلوچ جیسے کردار ابھی تک زیر حراست ہیں۔ اگر حالات مزید ابتری کی طرف جاتے ہیں تو پی پی کی قیادت کو انسداد دہشت گردی اور ملک کے خلاف جاسوسی جیسے مقدمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ جس سے نجات بھی ممکن نظر نہیں آتی۔ ان حالات میں بلاول زرداری بھی مولانا کی کسی احتجاجی تحریک کی حمایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں‘ لہٰذا اس چند پارٹی کانفرنس کی طرف سے حکومت کے خلاف کوئی طوفان برپا کرنے کی امیدیں دم توڑ جاتی ہیں۔چنانچہ یہ ”چند پارٹی کانفرنس‘‘ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے کوئی بڑا بریک تھرو دکھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ان کی حکومت کو فوری طور پر گرانے کی خواہش محض ایک خواہش ہی رہے گی۔ کوئی اسمبلیوں سے مستعفی نہیں ہو گا کوئی عوامی ریلی نہیں نکلے گی، اسلام آباد میں کوئی لاک ڈائون نہیں ہو گا، نواز شریف یا آصف علی زرداری کی رہائی کے لئے کوئی عوامی تحریک نہیں چلے گی، بجٹ منظور ہونے کے بعد کوئی احتجاج نہیں ہو گا اور نہ ہے وسط مدتی الیکشن کی بیل منڈھے چڑھے گی۔سچی بات یہ ہے کہ اس چند پارٹی کانفرنس کے شرکا اگر نہ ہی جمع ہوتے تو بہتر ہوتا۔ اس چند پارٹی کانفرنس کے مقابلے میں‘ جس میں کوئی اتفاق رائے بھی نہ پیدا ہو سکا‘ اے پی سی کے متحدہ پلیٹ فارم کی طرف سے محض دھمکی حکومت کے خلاف زیادہ موثر ہتھیار ثابت ہوتی۔آنے والے مہینوں اور سالوں میں عمران خان حکومت کو معیشت اور گورننس کے حوالے سے زیادہ سنگین چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ انہیں دستاویزی معیشت میں اضافہ کرنے کے راستے تلاش کرنا ہوں گے جبکہ کاروبار کرنے میں آسانیاں پیدا کرنا بھی یقینی بنانا ہو گا۔ یہ بہت بڑے کام ہیں اتنے بڑے کہ ناکامی کی صورت میں خود حکومت اس کے بوجھ تلے دب سکتی ہے۔تاہم حکومت کو آنے والے دنوں میں بڑے خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا‘ مگر شاید اسے کسی جاندار اپوزیشن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔