لاہور (ویب ڈیسک) بات ادھوری رہ جاتی ہے ۔ذہن میں موضوع یہ تھا کہ تحریکِ انصاف میں بدنظمی ہمیشہ کیوں مسلط رہی ۔ حصولِ اقتدار کے بعد امیدوں کی فصل کیوں برباد ہوئی ۔ کل انشاء اللہ اس پہ بات کریں گے ، آج تو تصور تمہید میں تمام ہوا۔ یہ 1996ء کا موسمِ گرما تھا ۔
نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ سیاست کے خارزار میں عمران خان اتر چکے تھے ۔ راولپنڈی پریس کلب نے انہیں مدعو کیاتو خان نے خواہش ظاہر کی کہ میں ان کے ساتھ جائوں ۔ چھوٹتے ہی اس نے نواب زادہ نصر اللہ خاں مرحوم کو لوٹا قرار دیا اور کہا کہ ان کی طرف سے ملاقات کی دعوت اس نے ٹھکرا دی ہے ۔یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ نواب زادہ نصر اللہ خان کس تجربے اور سیاسی بصیرت کے حامل ہیں۔کشمیر کمیٹی کے چئیرمین کا عہدہ انہوں نے کیونکر قبول کیا۔تب اس نے کہا کہ اچھا میں حفیظ کو بھیج دوں گا ،پنجاب یونیورسٹی یونین کے سابق صدر ، طویل قامت حفیظ خاں ۔ کپتان کچھ بے چین لگا۔ نماز ادا کرنے کا خیال ،خبط کی طرح سوار تھا ۔ غسل خانے کی طرف لپکا ۔ اس تیزی سے وضو کیا کہ قمیض بھگو لی ۔ اخبار نویسوں کو نمٹا کر مارگلہ کی پہاڑیوں کاارادہ رکھتا تھا کہ ورزش اس کی عبادت تھی ۔ شوکت خانم کے معمار پہ اخبار نویس نامہرباں نہ تھے ، جس کی آنکھوں میں معصومیت اور حیرت ابھی باقی تھی ۔ پھر بھی شکوک و شبہات اور تحفظات تو تھے ۔ ایک نئی پارٹی جہاندیدہ سیاستدانوں کو کیسے پچھاڑ ے گی ۔ چند دنوں میں بہترین امیدواروں کا انتخاب کیسے ممکن ہو گا ۔ کچھ دیر تحمل کے ساتھ سوالوں کے جواب دیتا رہا لیکن پھر بے تابی غالب آئی اوربازو لہراتے ہوئے اس نے کہا ’’میں ایک طوفان لے کر آئوں گا۔ ‘‘ ان مواقع پر گاہے انشاء اللہ کہنا وہ بھول جاتاہے ۔ غلطی سرزد ہو چکی تھی ۔