تحریر : میر افسر امان
عمران خان نے اپنے سی پلان کے تحت ملک کو بند کر کے حکومت پر پرشیئر بڑھانے کے پروگرام نے فیصل آباد میں خونی صورت حال اختیار کر لی ہے۔ اس سے قبل خان صاحب نے اپنی سیاسی بصیرت کو کام میں نہیں لایا اور جب ٥ نکات منظور ہو گئے تھے تو اس وقت مذاکرات نہیں کیے اور وقت ضائع کر دیا جس سے حکومت کی پوزیشن مستحکم ہوئی۔ پھر ایک اسٹپ پیچھے ہو کر نواز شریف کے استفیٰ کے مطالبہ سے دسبردار ہوئے ۔اب لگتا ہے فرسٹریشن کاشکار ہو گئے ہیں۔ اپنے سی پلان کے تحت ٣٠ نومبر کے جلسے میں کہا ، کہ میں ٤ تاریخ کو لاہور جائوں گا شہر بند کر دوں گا۔ ٨ فیصل آباد جائوں اور شہر بند کر دوں گا۔ ١٢ تاریخ کو کراچی جائوں گا اور شہر بند کر دوں گااور ١٦تاریخ کو پورے پاکستان کو بند کردوں گا۔ سارے ملک کی سڑکیں بند ہو جائیں گی۔ جب حکومت پر پریشئر بڑھتا ہے تو مذاکرات پر تیار ہو تی ہے۔ شیخ رشید صاحب جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں اور فرماتے ہیں کمی کمینے ،بے ایمان ،مارو، جلائو، جلادو میں ملک میں آگ لگا دوں گا۔
ضرورت اس بات کی تھی کہ حکومت عمران خان کے سی پلان کو سیاسی طریقے ناکام کرنے کی کوشش کرتی مگر ان کے مقابلے میں ن لیگ کے کارکنوں کو سامنے لایا گیا۔ لگتا ہے حکومت کی مت ماری گئی ۔ پھر وہی ہوا جو ایسے موقعوں پرہوتا ہے۔ملت چوک، گھنٹہ گھر، ڈی ٹائب چوک اور عبداللہ چوک میدان جنگ بن گیا۔ پہلے کارکنوں نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگائے ، ٹماٹر اور انڈے مارے گئے پھر پتھرائو شروع ہوا، ڈنڈے مارے گئے بلا آ خر شاہ سے شاہ کے زیادہ وفاداروں نے گولیاں چلا دی۔ پولیس اور تحریک انصاف کے ٤٠افراد زخمی ہوئے۔ اخباری اطلاع کے مطابق تحریک انصاف کے دو کارکن شہید ہوئے اور پھر تحریک انصاف نے لاشوں کی سیاست شروع کر دی۔ سراج الحق امیر جماعت اسلامی نے کہا ہے ہوشمندی کا ثبوت نہ دیا تو ٧٧ جیسے حالات پیش آ سکتے ہیں۔ جمہوری عمل اتنا مشکوک بن گیا ہے کہ کسی کو بیلٹ بکس پر اعتماد نہیں رہا۔ مایوس لوگوں نے ڈنڈے اٹھا لیے ہیں ۔ تحریک انصاف کی طرف سے کل پورے ملک میں نماز ظہر کے بعد نماز جنازہ کی کال دے دی گئی ہے۔ شہید کارکن حق نواز جس کو کرکٹ کا شوق تھا اسی وجہ سے تحریک انصاف میں شامل ہوا تھا ۔ایک شخص شاید نامی کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا ہے۔ ڈی سی او فیصل آباد،رانا ثنا اللہ اور عابد شیر علی کے علاوہ ٣٠٠ افراد کے خلاف ایف آئی آر،مقتول کے بھائی حق نواز کی معیت میں درج کر دی گئی ہے جس میں دہشت گردی کی دفعہ بھی لگائی گئی ہے۔
شہباز شریف نے قاتل کو گرفتار کرنے کا کہا اور قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دینا کا کہا ہے ۔ ملزم کی نشان دہی کرنے والے کے لیے ٥٠ لاکھ کا انعام بھی رکھ دیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے کارکن رانا ثنا اللہ کے ڈیرے کے پاس جمع ہوئے ہیں۔ نواز لیگ کے کارکن بھی بڑی تعداد میں وہاں جمع ہو گئے ہیں ۔ کسی نا گہانی حادثے سے بچنے کے لیے پولیس کی مذید نفری بھی بلا لی گئی ہے۔ عمران خان نے ڈی ٹائپ چوک پر اپنی گاڑی کی چھت پر چڑھ کر کارکنوں سے خطاب کیا۔ عمران خان نے وی کا نشان بنا کر خطاب شروع کیا اور گو نواز گو کے نعرے لگائے ۔شیخ رشید، شاہ محمود قریشی چوہدری اعجاز بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا میںنواز شریف کو پیغام دیتا ہوں آپ نے ہمارے پر امن احتجاج کو ناکام کرنے کے لیے پولیس کو استعمال کیا۔ پاکستانی قوم سمجھ چکی ہے۔ عابد شیر علی اور راناثنا اللہ نے پلان بنا کر ہمارے کارکنوں کے ساتھ مقابلہ کیا ان کا خیال تھا ہمارے کارکن بھاگ جائیں گے ۔ اس سے پہلے ہمارے قافلے پر لاہور،گوجرنوالہ میں پولیس کی گاڑیوں سے گولیاں چلائی۔ جہلم میں ہمارے قافلے پر گولیاں چلائیں اور ہمارے کارکنوں کو زخمی گیا گیا یہی حالت اسلام آباد میں بھی رہی۔
نواز شریف ہمیشہ ظلم کی سیاست کرتے ہیں۔ ٢٠١٣ ء کے الیکشن کا انصاف لیکر رہیں گے۔ جب تک یوڈیشنل کمیشن نہیں بنتا اور اپنا کا م نہیں شروع کرتا احتجاج جاری رہے گا۔ کل ہم سارے پاکستان میں یوم سوگ منائیں گے۔ اس کے بعدلاہور کو بند کریں گے پھر کراچی کو بلاک کریں گے۔ میں فیصل آباد کے کارکنوں اور عوام کو شاباش دیتا ہوں۔ گو نواز گو کے نعرے لگائے گئے ۔ اُدھرنواز شریف کی اپنے وزرا سے ملاقات ہوئی اور تحریک انصاف سے مذاکرات کا کہا اور فیصل آباد کے واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا۔ حکومت کے دروازے مذا کرات کے لیے ہر وقت کھلے ہوئے ہیں جمہوریت میں مذاکرات کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں کے ختلافات حل ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کا تشدد پر قابو پانے کا حکم جاری کیا ۔ ہم مذاکرات کے لیے حاضر ہیں مگر پی ٹی آئی نے احتجاج کو ترجیح دی۔ تحریک انصاف کے لیڈر عارف علوی نے کہا کہ جب لائشیں گرائی جارہی ہوں تو مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں۔ عمران خان رات گئے اسلام آباد سے فیصل آباد ڈی ٹائپ چوک پر پہنچ گئے ہیں۔
تحریک کے جو کارکن گھنٹہ گھر پر جمع تھے ان کی خواہش تھی کہ عمران خان ایک بار یہاں آکر کارکنوں سے خطاب کریں مگر ایسا نہ ہو سکا اور اپنے لیڈروں کے کہنے پر کارکن ڈی ٹائپ چوک پر پہنچ گئے اور عمران خان کا خطاب سنا۔ خطاب کے بعد عمران خان الائیڈ ہسپتال بھی گئے اور تحریک انصاف کے کارکنوں کی عیادت کی وہ شہید ہونے والے کارکن کے گھر بھی گئے اور اہل خانہ سے تعزیت کی۔ فیصل آباد واقعے پرسارے ملک میں احتجاج شروع ہو گیا۔ لاہورجی پی او چوک پر احتجاج جو ابھی تک جاری ہے گو نواز گو کے نعرے لگائے جا رہے ہیں بس جلانے کی کوشش بھی کی گئی ۔ ٹھوکر نیاز بیگ پر بھی احتجاج شروع ہوا ہے۔ڈی ٹائپ چوک کے پاس نہر سے ایک لاش ملی ہے جس کی پہچان کی کوشش کی جاری ہے پی ٹی آئی کا جھنڈا بھی اس کے پاس سے ملا ہے۔کراچی شاہراہ فیصل پر احتجاج کیا گیا اور روڈ بند کر دیا گیا۔ ملک کے تمام شہروں میں تحریک انصاف کے کارکن احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں ۔ شیخ رشید کی آگ لگانے والی تقریر اور عمران خان کے ملک بند کرنے کے پروگرام کو حکومت بار بارا لیکٹرونک میڈیا پر کا اشتہار کی شکل میںچلوا رہی ہے جس میں شیخ رشید صاحب کہہ رہے ہیں کمی، کمینے ،بے ایمان ،مارو مار و، جلائو دو، میں ملک میں آگ لگا دوں گا۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں کہاپہلے٤ لاہور ٨ فیصل آباد ١٢ کو کراچی اور ١٦تاریخ کو پورا پاکستان بند کروں گا۔
وزیر اطلاعات پرویز رشید صاحب کہہ رہے ہیں کہ عمران خان صاحب کا ایجنڈا واضع ہو گیا ہے۔ ان کی کال پر فیصل آباد بند نہ ہوا۔ الیکٹرونک میڈیا نے دکھایا کہ فیصل آباد ١١ بجے تک کھلاہواتھا پھر تحریک انصاف کے لوگوں نے دکاندارں کو ڈنڈوں کے زور پر کاروبار بند کرنے پر مجبور کیا جس وجہ سے حالات خراب ہوئے۔ انہوں نے کہا عمران خان صاحب اب آپ لاہور میں آگ لگانے کی بات کر رہے ہیں خان صاحب یہ آگ آپ کو بھی لپیٹ لے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے حکومت کی بے تدبیری سے سار ے پاکستان میں احتجاج شروع ہو گیا ہے۔ اگر کوئی سیاست دان اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کرتا ہے تو حکومت پولیس کے ذریعے اس کو کنٹرول کرتی ہیں مگر حکومت نے نواز لیگ کے کارکنوں کے ذریعے احتجاج کو کنٹرول کرنے کا پروگرام بنایا جو با لکل غلط طریقہ ہے اس سے نواز حکومت کی بدنامی ہوئی ہے۔ کل تحریک انصاف کو احتجاج کرنے دیا جائے اور رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔ ہاں اگر وہ غیر قانونی کام کرتے ہیں تو قانون کے مطابق ان سے نمٹا جائے نہ کہ نواز لیگ کے کارکنوں کو میدان میں لایا جائے۔ کل ہی مذاکرات شروع کیے جائیں تحریک انصاف کو بھی چاہیے کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں ۔ان کے مطابق ان کی طرف سے حکومت پر اب پرئیشر بڑھ گیا ہے۔ لہٰذ ا تحریک انصاف کو اس موقعہ کو دوبارہ ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اُدھر ملک کے سیاست دانوں نے فیصل آباد اقعے پر اپنی ناپسندیگی کا اظہار کیا اور قا تلوں کو قانون کے حوالے اور قرار واقعی سزا کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت کو پہل کر کے فوراً مذاکرات شروع کرنے کا کہا ہے۔
تحریر : میر افسر امان
mirafsaraman@gmail.com