لاہور (ویب ڈیسک) میں ٹاور آف لندن کی آسیب زدگی پرکچھ انگریزدوستوں سے مل کر کافی عرصہ کام کرتا رہا ہوں ۔انہیں جیسے ہی یورپ سےمیرےبرطانیہ پہنچنے کاپتہ چلاتو مجھے بلا لیا گیا،ریسرچ کےلئے نیا کچھ سرزد ہو چکا ہے ۔ٹاور آف لندن کا قلعہ ایک قدیم عقوبت خانہ ہے ، صدیوں اسےایک خوفناک ترین قید خانہ نامور کالم نگار منصور آفاق اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی حیثیت حاصل رہی ،قیدیوں کو یہاں اذیتیں دے دے کر مارا جاتا تھا ۔اب تقریباًٍپچھلے ایک سو سال سے یہ قلعہ بھوتوں اور بدروحوں کے مسکن کے طور پر مشہورہے۔ یہاں کئی لوگوں کو بھوت نظر آ چکے ہیں ۔کہا جاتا ہے اِس عمارت میں ایک ریچھ کی شکل کی بدروح کا قبضہ ہے ۔تازہ ترین مسئلہ یہ تھا کہ پچھلے دنوں اس ریچھ نما بھوت کو دیکھ کر ایک گارڈ خوف سے مر گیا تھا۔جہاں وہ گارڈ مرا تھا اب وہاں کچھ آوازیں سنائی دینے لگی تھیں ، میں وہی سننے گیا تھا۔میں وہاں سے نکلا تو دریائے ٹیمز کے کنارے کنارے چلنے لگا اور یہی سوچتا ہواکہ واقعی یہ آوازیں تھیں یا میرا وہم تھا ۔وہم ۔وہم ہوتا تو دوسروں کو یہ آوازیں سنائی نہ دیتیں ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ سب کو ایک سا وہم ہونے لگے ۔ اچانک میری نظر اٹھی تو سامنے قاسم خان سوری ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کھڑے تھے میں چکراسا گیا سوچا کہ کوئی ہمشکل ہے مگرپی ٹی آئی کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری بایزید کاسی کو دیکھ کر یقین ہو چلا کہ وہی ہیں پھر وہ جس والہانہ انداز سےملے تو شک کی گنجائش ہی نہ رہی ۔ دراصل وہ آذربائیجان کے صدر کی دعوت سےواپسی پر استنبول سے لندن آ گئے تھے۔پھر کیا ہونا تھا یہی ہوا کہ وہ دو سے تین ہو گئے ۔لندن کی سیر جاری رہی ،لندن برج پر خاصا وقت گزارا ،اسٹیمر پر سوار ہو کرلندن آئی آ گئے ۔وہیں اُس ریستوران میں فش اینڈ چپس کھائے ،جس پر’’حلال ‘‘ بورڈ لگا تھا ۔ برطانوی مسلمان اس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ وہ فش جس تیل میں تلی جارہی ہے کہیں وہ کسی حرام جانور کی چربی سے تو نہیں بنایا گیا ۔اُن کی رہا ئش گاہ پر پہنچا تو سچ مچ پریشان ہوگیا۔یہ ایک کمرے کا فلیٹ تھا جہاں کچن بھی تھا ، ڈرائنگ روم بھی اور بیڈ روم بھی ۔ میں نے حیرت سے کہا :، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کو تو کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرنا چاہئے تھا۔بولے: ’’میں نجی ٹور پر ہوں اور رہائش کےلئے یہی جگہ افورڈ کر سکتا ہوں ‘‘دوسری بات یہ ہے کہ اگر سرکاری ٹور پر بھی ہوتا تو یہی جگہ پسند کرتا ۔ میں اپنے ملک کی دولت ضائع نہیں کرنا چاہتا ،میں چاہتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ میرے اپنے ملک کے اندرخرچ ہو تاکہ اس سے ملک کا فائدہ ہو۔ یہ اُن کا نجی دورہ تھا مگر پی ٹی آئی کے لوگوں نے اسے تقریباََ سرکاری دورے میں ہی بدل دیا تھا برطانیہ میں ان کی اتنی پذیرائی دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی ،میں نے پوچھ لیا کہ آپ بلوچستان سے ایم این اے منتخب ہوئے ہیں مگر پنجاب اور پختون خوا کے لوگوں میں اتنے پاپولر کیوں ہیں تو اس نوجوان اسپیکر نے کہا میں پی ٹی آئی کے دوسرے کارکنوں کی طرح عمران خان کا ایک معمولی ورکر ہوں -عمران خان کی مردم شناس نگاہ نے مجھے ڈپٹی اسپیکر بنا دیا ہے مگر میں نے خود کو ہمیشہ ایک کارکن ہی سمجھا ہے اور عمران خان کے ہر کارکن سے محبت کی ہے عمران خان ہم سب کارکنوں کی محبت ہیں یہ وہ محبت ہے جو رقیب سے نفرت نہیں پیار سکھاتی ہے۔ہم تینوں ایک دن ہائوس آف کامن میں گئے ، بایزید کاسی اور ڈاکٹر خورشید احمد (سی بی ای ) بھی ساتھ تھے ۔ہم نے ہائوس کی کارروائی دیکھی -جہاں برطانوی وزیر اعظم تھریسا مےایم پیز کے سوالات کا جواب دے رہی تھیں ہم نے پرائم منسٹرگیلری میں بیٹھ کر اجلاس دیکھا -اجلاس میں ہائوس آف کامن کے اسپیکر نے باقاعدہ اعلان کیا کہ آج کے اجلاس میں پاکستان پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر بھی موجود ہیں -اجلاس ختم ہوا تو قاسم خان سوری کے اعزاز میں وہیں بر طانوی پارلیمنٹ کے پاکستانی ایم پیز نے ایک تقریب رکھی ہوئی تھی اس میں شرکت کی -قاسم سوری نے پاکستانی معیشت اور بلوچستان کے مسائل پر تفصیلی گفتگو کی جسے بہت سراہا گیا-تقریب کے بعد لارڈ قربان آئے اور ہمیں ہائوس آف لارڈ میں گئے کچھ دیر اس اجلاس کی کارروائی دیکھی -پھر انہوں نے ہمیں پوری عمارت کا وزٹ کرایا ہائوس آف کامن کا بھی اور ہائوس آف لارڈ کا بھی -قدیم ترین پارلیمنٹ کے اندر لگی ہوئی ایک ایک تصویر اور ایک ایک بت کے متعلق بتایا- پارلیمنٹ کی ہسٹری پر بھی روشنی ڈالی- برمنگھم سے لیبر ایم پی خالد محمود سے ملاقات تقریب میں بھی ہوئی تھی انہوں نے ہمیں دوبارہ جوائن کرلیا پانچ بجےلارڈ شیخ کے ساتھ میٹنگ تھی اس میں طے ہوا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران پر مشتمل گروپ اور برطانوی بزنس مین کا ایک گروپ ڈپٹی اسپیکر کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کرے گا اور پاکستان میں ایک بڑی برطانوی سرمایہ کاری کا راستہ ہموار کرے گا-اگلے دن ہم برمنگھم آگئے برمنگھم کے پاکستانی قونصل خانے میں گئے موجود لوگوں کے مسائل سنے -کچھ فوری طور پر حل کرائے -کچھ نوٹ کر لئے-وہاں سے شیکسپئر کے شہر گئے اس کا پانچ چھ سو سال پرانا مکان دیکھا مکان کے ساتھ شیکسپئر سنٹر کی عمارت تھی اس میں جیسے داخل ہوئے تو پہلی نظر جس دیوار پر پڑی جس پر علامہ اقبال کی نظم لکھی ہوئی تھی اس کے ساتھ اس کا انگریزی ترجمہ بھی درج تھا یہ نظم اقبال نے شیکسپئر کے متعلق کہی تھے ۔ حسن آئینہ حق اور دل آئینہ حسن ۔۔دل انساں کو تیرا حسن کلام آئینہ ۔۔ قاسم سوری اور میں تقریباً ایک ہفتہ اکٹھے رہے ، برطانیہ بھر کا ایک ہی گاڑی میں سفر کیا ۔ایک ہی دسترخوان پر بیٹھے ،ہم اگرچہ پرانے دوست ہیں مگر اتنا زیادہ ایک دوسرے کو جاننے کا موقع اِس سے پہلے کم ہی ملا تھا۔ مجھے اس وقت یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر عمران خان کی ٹیم میں ایسے کھلاڑی موجود ہیں تو کبھی ہار سکتے ہی نہیں۔ چاہے جتنی آسیب زدہ آوازیں سنائی دیتی رہیں۔