اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثارنے عمران خان کی نااہلی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ الیکشن کمیشن عدالت یا ٹربیونل نہیں اوراس کے اختیارات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ عمران خان کی نااہلی سے متعلق حنیف عباسی کی درخواست کی سماعت کررہا ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فارن فنڈنگ پر دلائل تفصیل سے سن چکے ہیں لیکن ہم کچھ سوالات کے جواب جاننا چاہتے ہیں، کیا درست ہے کچھ فنڈز آئین کے آرٹیکل 6 کی شق (3) کے حوالے سے ممنوعہ ہیں، جس پر عمران خان کے وکیل انور منصور نے کہا کہ کوئی فنڈزممنوعہ نہیں، انتخابی نشان لینے کیلئے تفصیلات دینا ہوتی ہیں، الیکشن کمیشن تفصیلات جمع کرواتے وقت جانچ پڑتال کرسکتا ہے، الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں کے گوشوارے منظور کیے۔
انورمنصورکے دلائل پرچیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ آڈٹ رپورٹ منظور ہوگئی تو دوبارہ جائزہ نہیں لیا جاسکتا۔ جس پر انور منصور نے کہا کہ اکاؤنٹس کی تفصیلات ہر سال جمع کرانا ہوتی ہیں اور اس کے پاس ہر سال جانچ پڑتال کا موقع ہوتا ہے لیکن الیکشن کمیشن دس سال بعد اکاوٴنٹس نہیں کھول سکتا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن پڑتال ازخود کر سکتا ہے یاکسی کی شکایت پر، کیا 184 تھری کے تحت ہم براہ راست کارروائی کرسکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل ابراہیم ستّی کے دلائل شروع کئے، انہوں نے پولیٹیکل پارٹی آرڈررضاکارانہ آڈٹ کو ڈیل کرتا ہے، پی ٹی آئی نے آج تک کسی گوشوارے میں فارن فنڈنگ کا ذکر نہیں کیا، پی ٹی آئی نے جان بوجھ کرفراڈ کیا اورحقائق چھپائے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کون سی سیاسی جماعت تسلیم کرے گی کہ فنڈز ممنوعہ ذرائع سے آئے، کسی نے فنڈز کو ممنوعہ تسلیم کیا تو وہ قبضہ میں لے لیے جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ فارن فنڈنگ پرکارروائی کس کا اختیارہے۔ جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا ممنوعہ نکال کرکوئی فارن فنڈنگ تسلیم کی گئی، 2008 سے آج تک الیکشن کمیشن نے فنڈز کی تفصیلات طلب نہیں کیں۔ کیا الیکشن کمیشن کی زمہ داری نہیں کہ تفصیلات طلب کرے۔
ابراہیم ستّی نے کہا کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے بانی رکن ہیں، وہ گھر کے بھیدی ہیں جنہوں نے لنکا ڈھائی، الیکشن کمیشن نے اکبر ایس بابر کی درخواست پر نوٹس لیتے ہوئے کارروائی شروع کی، 8 اکتوبر 2016 کو الیکشن کمیشن نے اپنے دائرہ اختیار کو تسلیم کیا لیکن پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار محدود وقت کے لیے ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن عدالت یا ٹربیونل نہیں، یہ اتھارٹی کے تحت فنڈز کے حوالے سے اختیاررکھتا ہے، اس کے اختیارات پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ اس موقع پرپی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ تحریک انصاف کو تمام فنڈنگ بذریعہ بینک ملتی ہیں، جس پرچیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس بات کے آپ کے پاس کیا شواہد ہیں۔
حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے کیلی فورنیا میں 195 ملٹی نیشنل کارپوریشنز سے فنڈز لیے اس کے علاوہ بھارت سمیت دیگرغیر ملکیوں سے بھی فنڈز لیے گئے، پی ٹی آئی کی تفصیلات میں مکمل معلومات نہیں دی گئیں، فنڈز دینے والوں کا کہیں نام نہیں تو کہیں ایڈریس نہیں،عدالت میں ویب سائٹ کھول کر دیکھا جا سکتا ہے، جس پرانورمنصورنے کہا کہ پی ٹی آئی نے فنڈزکی تمام تفصیلات دی ہیں۔ جس پراکرم شیخ نے کہا کہ پی ٹی آئی کوکئی ملین ڈالرزممنوعہ ذرائع سے ملے، سوال یہ ہے کہ کیا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کو پی ٹی آئی نے ڈونرزکی مکمل فہرست دی، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کو تو دی گئی تفصیلات پر رپورٹ تیار کرناہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ امید ہے آپ سپریم کورٹ کے دائرہ کارپرسوال نہیں اٹھائیں گئے، جس پرانورمنصورنے کہا کہ ان کی جانب سے عدالتی دائرہ کار پر اب کسی صورت سوال نہیں اْٹھایا جائے گا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔