اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف نے انتخابی مہم کے پلان کو حتمی شکل دے دی، عمران خان 24 جون سے انتخابی محاذ پر نکلیں گے۔
ذرائع کے مطابق عمران خان میانوالی سے انتخابی مہم کا آغاز کریں گے، میانوالی کے بعد لاہور، کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں کارکنوں کا لہو گرمائیں گے، انتخابی مہم کا اختتام اسلام آباد میں کیے جانے کا امکان ہے۔ذرائع کے مطابق، 24 جون تک ٹکٹوں کی آخری لسٹ جاری کر دی جائے گی، انتخابی منشور کا بھی 24 جون کے بعد اعلان کر دیا جائے گا، ملک بھر میں جلسے، جلوس اور انتخابی محاذ کی دیگر سرگرمیاں ہوں گی۔عمران خان کے لئے ہیلی کاپٹر اور جہاز کی سہولیت حاصل کر لی گئی، تمام امیدواروں کو اپنے حلقوں میں عوامی رابطہ مہم کی ہدایت کر دی گئی۔ پی ٹی آئی وقت کی قلت کے باعث ہولو گرام ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کرے گی، جن حلقوں میں کپتان نہ جاسکے وہاں ہولوگرام ٹیکنالوجی کے زریعے خطاب ہوگا۔دوسری جانب ایک خبر کے مطابق جیسے جیسے2018ءکے انتخابات قریب آرہے ہیں زیادہ سے زیادہ عوامی ہمدردی سمیٹنے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں سرگرم ہو چکی ہیں، تحریک انصاف کا اپنا100روزہ پلان پیش کرنا بھی اسی انتخابی مہم کا ایک حصہ ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے منشورسے اس کے نظریات، ملکی نظام چلانے کے طریقہ کار اورعوامی مسائل حل کرنے کے لیے اس کی کوششوں کی عکاسی ہوتی ہے جس کی بنیاد پرعوام اسے ووٹ دیتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی وفاق میں متعدد بار برسراقتدار آچکی ہیں اس لیے عوام ان کے منشور ، نظریات اور کارکردگی سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن تحریک انصاف ابھی صرف خیبرپختونخوا تک محدود رہی ہے اس لیے اس کے لیے لازم تھا کہ قومی سطح پر عوام کو اپنے منشور سے بھرپور طور پر آگاہ کرتی۔تحریک انصاف نے جو منشور پیش کیا اس کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ہرسیاسی جماعت ملکی ترقی،خوشحالی اورعوامی مسائل کے حل کاتقریباً ایسا ہی خوش نما ایجنڈا پیش کرتی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا کسی سیاسی جماعت کے پاس ملکی مسائل حل کرنے کی صلاحیت بھی ہے یا نہیں، اوراس نے صرف انتخابات جیتنے کے لیے خوش نما ایجنڈا پیش کرکے عوام کو سبز باغ دکھانے کی کوشش کی ہے۔بڑے بڑے سنہرے خواب دکھانا تو آسان امر ہے لیکن انھیں شرمندہ تعبیرکرنا ہی اصل کام ہے۔ جو سیاسی جماعتیں برسراقتدار رہی ہیں، انھوں نے بھی ایسے ہی سنہرے خواب عوام کو دکھائے تھے لیکن برسراقتدار آنے کے بعد داخلی اور خارجی سطح پر مسائل اور چیلنجز اپنی سنگینی کے ساتھ سامنے آئے تو ان پر اصل حقیقت کھلی کہ دعوے کرنا تو آسان کام لیکن مسائل حل کرنا جوئے شیرلانے کے مترادف ہے۔یہی وجہ ہے کہ عوام کے آج تک بنیادی مسائل ہی حل نہیں ہو پائے۔ پینے کے صاف پانی، سیوریج کے بہتر نظام، صفائی، صحت، تعلیم اور روزگار سمیت ہزاروں مسائل اپنی سنگینی کے ساتھ جوں کے توں موجود ہیں، سابق حکومتوں نے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی اس مقصدکے لیے بڑے پیمانے پر بجٹ بھی مختص کیے گئے لیکن بوجوہ یہ مسائل آج بھی حل طلب دکھائی دیتے ہیں۔