بیجنگ (ویب ڈیسک) وزیراعظم عمران خان پانچ روز تک چینی میڈیا پر چھائے رہے ، ان کی چین میں سرگرمیاں چینی اخبارات کی شہ سرخیاں اور ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنز بنی رہیں۔وزیر اعظم عمران خان کی چین کے صدر شی جن پنگ ،وزیراعظم لی کی کیانگ اور چین کی دیگر اعلیٰ قیادتوں سے ملاقاتوں کو ،
چین کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بڑے پیمانے پرکوریج دی گئی۔چائنہ گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک،گلوبل ٹائمز،پیپلز ڈیلی،چائنہ ڈیلی اور دیگر چینی اور انگریزی زبان کے ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات کی شہ شرخیوں میں یہ تاریخی دورہ زینت بنا رہا۔اخبارات اور نیوز چینلز دونوں ممالک کی مثالی دوستی اور اس تاریخی دورہ کی اہمیت کے حوالے سے آرٹیکلز اور تجزیے بھی شائع اور نشرکر ہے ہیں۔عمران خان نے کانفرنس سے خطاب کیا تو چین میں ریڈیو پر خطاب کو بھی سنایا گیا۔ عمران خان پاکستان کے واحد وزیراعظم جنہیں چین میں اتنی پذیرائی حاصل ہوئی ۔ جبکہ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین کے بعد 8نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا، جس کے تقریباً 2900الفاظ بتاتے ہیں کہ چینی ذہن کیسے کام کرتا ہے ، باریک بینی، بصیرت، دور اندیشی، مکمل تفصیل ، دیدہ و دانستہ احتیاط اور ناپ تول،اعلامیہ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دوستی ، تعاون اور اچھی ہمسائیگی پر مبنی تعلقات کا معاہدہ جس پر 2005میں دستخط ہوئے ، سٹریٹجک کوآپرٹیو پارٹنرشپ کی بنیاد ہے ۔ اس میں دوطرفہ روابط کے تمام سماجی، سیاسی اور معاشی پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ موجودہ علاقائی، عالمی ایشوز بشمول افغانستان اور ایران پر ،
امریکی پابندیوں کا بھی اس میں ذکر ہے ۔ چینی ذہن اور ان کی ثقافتی اقدار سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ چینی حکام اور سیاستدان الفاظ کی بھرمار اور شورشرابا اسی قدر ناپسند کرتے ہیں جتناوہ انتہائی حساس امور کے سرعام ذکر کو برا سمجھتے ہیں۔ میڈیا پر شور کے بجائے وہ سٹریٹجک اہمیت کے اہداف خاموشی سے حاصل کرنا پسند کرتے ہیں۔ ا پنے دوستوں کو پریشان کرنا ان کے خمیر میں نہیں، نہ ہی وہ قریبی دوستوں اور پارٹنرز کے ہاتھوں پریشان ہونا پسند کرتے ہیں۔ پاکستان واحد ملک نہیں جسے مدد کی ضرورت ہے ، بیجنگ کبھی ایسے طریقے سے کام کرنا پسند نہیں کریگا جوکہ دوسرے ترقی پذیر ملکوں کی انہی مسائل پر توقعات بلند نہ کرتا ہو۔ مشترکہ اعلامیہ محتاط رویے کا عکاس ہے جوکہ ہمارے عاقبت نااندیش ، لاعلم وزیروں کے غیر محتاط تبصروں کے جواب میں چینی قیادت کو مجبوراََ اختیار کرنا پڑا۔اس کا نقصان بہرحال ملک کوہو سکتا تھا، کابینہ کے ارکان کا نہیں۔ عمران خان کے دورے اور جاری مشترکہ اعلامیہ میں پاکستانی سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کیلئے کوئی سبق ہے ، جن کی اکثریت کا رویہ بے پروا نوابوں جیسا ہے ، چین جیسے قریبی دوست کیساتھ معاملات کی حساسیت سے بھی غافل ہیں،
اور دوطرفہ تعاون کے موضوع پر ان کی تیاری بھی انتہائی ناقص ہے ،قبل ازیں، نواز شریف دور میں ڈی ایم جی گروپ کی قیادت میں کام کرنیوالی ریاستی مشینری اس وقت بے نقاب ہوئی جب 2015میں پاک چین اقتصادی راہداری کے آغاز کے بعد وہ کئی ماہ تک بنیادی فریم ورک تیار کرنے میں ناکام رہی۔ اس پر چین کو مدد کیلئے آگے آنا پڑا، اور پلاننگ کا کام اپنے ذمہ لے لیا۔ کیوں؟ کیونکہ پاکستان میں حقیقی اختیار ڈی ایم جی کے بیوروکریٹس کے پاس ہے ، میرٹ پر بھرتی ہونیوالے پیشہ ور ٹیکنوکریٹس کے پاس نہیں۔ پاکستان کو بیوروکریٹس چلاتے ہیں جوکہ آج کے دور میں بھی منتظر رہتے ہیں کہ ڈرائیور گاڑی کا دورازہ کھولے اور چپڑاسی دفتر تک ان کا بریف کیس اٹھا کر چلے ، یہ رویہ فعال اور مؤثر گورننس کے تقاضوں کے مطابق ہر گز نہیں۔ اسحق ڈار کے ماتحت کام کرنیوالا ایک بیوروکریٹ جسے بعدازاں سٹیٹ بینک کی سربراہی انعام میں ملی، اورانہیں انقلابی وزیر خزانہ اسد عمر کی قربت بھی حاصل ہے ، برطانوی دور میں گورننس پر بیوروکریسی کی گرفت کی چلتی پھرتی تشریح ہیں۔ بیجنگ کا ایک پرانا چینی دوست جوکہ پاکستان کے بارے میں ہم سے کہیں بہتر جانتے ہیں، کا ردعمل بہت سبق آموز ہے ۔ میں نے انہیں مشترکہ اعلامیہ کی وضاحت کرنے کا کہا ،
جس کے جواب میں انہوں نے کہا :‘‘مالیاتی امور پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ چینی قیادت نے عمران خان کو شاندار استقبالیہ دیا۔ عمران خان سی پیک سے متعلق اپنا نقطہ نگاہ بہتر بنانے کی کوشش میں ہیں، چین سی پیک پر مزید کام جاری رکھ سکتا ہے ، مگر رفتار شاید پہلے جیسی نہ ہو’’۔ امید ہے کہ چینی قیادت نے دیرینہ دوست کو سپورٹ کرنے کے وعدے پر جلد یا بدیر پورا اترنا ہے ۔ وہ پہلے ہی بہت کچھ کر چکی ہے ، جس کا سرعام ذکر کرکے وہ پاکستان کو پریشان کرنا پسند نہیں کریگی، مستقبل قریب میں بھی اسلام آباد کے مالیاتی مصائب کم کرے گی۔چین کیساتھ تجارت میں 13ارب ڈالر کے خسارے کو دیکھا جائے تو یوآن میں دوطرفہ تجارت خود ایک بڑی رعایت ہے ۔ نواز شریف ، آصف زرداری کے بلند بانگ تقاریر اور موجودہ کابینہ کے بعض وزیروں کے متنازع بیانات کے پس منظر میں دیکھا جائے تو مشترکہ اعلامیہ کی ڈرافٹنگ بہت احتیاط سے کی گئی، پاکستانی حکومت اس سے یہ رہنمائی لینی چاہئے کہ چین کیساتھ ڈیل کرتے ہوئے سنجیدہ، محتاط ، پیشہ ورانہ اور محنت پر مبنی سوچ اختیار کریں۔ مفت میں کچھ نہیں ملتا، ہمیں مالی اعلامیہ بخشیش نہیں سمجھنا چاہیے نہ یہ کہ بیل آؤٹ پیکیج لامحدود ہوتے ہیں۔ مدد کیلئے ہاتھ پھیلانے سے قبل ہمیں اپنی حالت بہتر بنانی چاہئے ۔ ہماری کم فہمی اور نااہلی کی قیمت دوسرے کیوں ادا کریں۔