لاہور (ویب ڈیسک) ایک دن کپتان سے جب عرض کی کہ الیکشن جیتنے کا امکان دور دور تک نہیں ۔ اس جواز کے ساتھ انتخابی مہم میں اترنے سے گریز کرنا چاہئیے کہ پاکستانی سیاست پیسے کا کھیل ہے اور پارٹی کا ڈھانچہ ابھی تشکیل نہیں پایا ۔ اس نے اپنے ساتھ دورے پر جانے کی دعوت دی ۔
نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ایک ہیلی کاپٹر تھا ، جو پچاس ہزار روپے روزانہ کرایے پر حاصل کیا گیا تھا ۔اٹک، میانوالی اور ہری پور اضلاع کے چار پانچ مقامات پر اجتماعات سے خطاب کرنا تھا۔ اوّل تو یہ ہوا کہ بی بی سی کے اخبار نویسوں کی ایک ٹیم اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر آن پہنچی ، جو پندرہ بیس منٹ کی ایک ڈاکومنٹری بنانے کی آرزومند تھی ۔ اس نے انکار کر دیا کہ کیوں پہلے سے طے نہیں کیا۔ میں نے کہا : کیا غضب کرتے ہو ۔ یہ اعزاز تو کم ہی کسی پاکستانی سیاست دان کو نصیب ہوتاہے ۔ خاطر سے یا لحاظ سے وہ مان توگیا لیکن پھر میرے کان میں کہا : میرے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھ جانا اور ایک نشست خالی بھی رکھنا ۔ مجھے نیند پوری کرنی ہے ۔ حیرت انگیز ! اٹک کے لیے ہیلی کاپٹر اڑا تو ٹانگیں پھیلا کر وہ گہری نیند سو گیا اور پندرہ بیس منٹ کے بعد خود بخود جاگ اٹھا ۔ پائلٹ سے صرف یہ پوچھا کہ پرواز کس دورانیے کی ہے ۔چار پانچ بار یہ عمل دہرایا گیا ۔ بارہ سے اٹھارہ منٹ ، ہر بار آنکھیں موندیں اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ؛تاآنکہ تربیلہ پہنچنے تک تازہ دم ۔ اندازہ یہ تھا کہ ہری پورمیں شام اتر آئے گی ۔ ممکن ہے کہ روزہ راہ میں افطار کرنا پڑے ۔ مسافروں کے لنچ باکس برطانوی اخبار نویسوں نے ہڑپ کر لیے تھے۔ سرگوشی میں کسی نے کہا کہ افطار کے لیے پانی کے سوا کچھ نہیں ۔’’ کم از کم کھجور تو ہونی چاہئیے
‘‘ میں نے سوچا اور ہیلی پیڈ سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ واپس آیا تو ہیلی کاپٹر کا انجن دھاڑ رہا تھا۔ دروازہ بند ہونے والا تھا ۔ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بمشکل سیڑھیاں چڑھ سکا ۔ اس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا اور مسکرایا ۔ ہمدردی نام کی کوئی چیز ان نگاہوں میں نہیں تھی ۔ سوچ لیا تھا کہ ہیلی کاپٹر اڑ گیا تو کسی نہ کسی طرح میجر عامر کے گائوں پنج پیر چلا جائوں گا۔ ٹھاٹ سے افطاری کروں گا اور رات وہیں خوشگوار محفل میں بتا دوں گا ۔ عمران خان کے برعکس میجر عامر ایک بہت مہمان نواز آدمی ہے ۔ ہری پورمیں ایک دوسرا تجربہ ہوا ۔ اس نے کہا : بی بی سی والے اپنا بندوبست خود کرلیں گے ۔ میں کار سے آجائوں گا ۔ تم ہیلی کاپٹر لے کر چلے جائو ۔اس دن ملگجی شام میں اس وادی کا نظارہ کیا ، جس کے لیے ملک ریاض بے تاب رہتاہے کہ مارگلہ میں سرنگ کھود کر اس کی چراگاہ بنا دی جائے ۔ جنت نظیر، جنت نظیر۔ اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اترا تو کھجوروں کا پیکٹ ہاتھ میں تھا اور مغرب کی اذان گونج ر ہی تھی ۔ اللہ بڑا ہے ،اللہ سب سے بڑا ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں آئو نماز کی طرف، آئو نماز کی طرف آئو کامیابی کی طرف ، آئو نجات کی طرف اللہ بڑا ہے ، اللہ بہت بڑا ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں مشورہ یہی دیا کہ بائیکاٹ ہی چاہئیے۔میانوالی کے سواہجوم کہیں بڑے نہ تھے ۔میانوالی میں بھی یہی کوئی دو ہزار ۔ مان بھی گیا لیکن اس کے غیر سیاسی دوست غالب آئے ۔ باقی تاریخ ہے ۔ بات ادھوری رہ جاتی ہے ۔ذہن میں موضوع یہ تھا کہ تحریکِ انصاف میں بدنظمی ہمیشہ کیوں مسلط رہی ۔ حصولِ اقتدار کے بعد امیدوں کی فصل کیوں برباد ہوئی ۔ کل انشاء اللہ اس پہ بات کریں گے ، آج تو تصور تمہید میں تمام ہوا