لاہور (ویب ڈیسک) سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی توسیع پر حکومت کا سپریم کورٹ میں جانا بڑی غلطی ہے، قانون سازی کرتے، پارلیمنٹ ایکٹ لے آتے تو سادہ اکثریت سے کام ہوجاتا، چیف جسٹس کو آرمی چیف توسیع کیخلاف درخواست مسترد کرنا چاہیئے تھی، جیسا ماضی میں ہوتا رہا،
پی ایم سیکرٹریٹ کے نالائق عملہ نے سارے معاملہ ہی مضحکہ خیز بنا دیا، زبان بھی درست نہیں تھی، معاملے کو غلیظ طریقے سے ہینڈل کرنے سے پنڈورا بکس گھل گیا، وزیر اعظم کی بھی تضحیک کی گئی، ہماری وزارت دفاع تو برائے نام ہے، بھارتی ڈیفینس منسٹی مضبوط ہے تمام فیصلے وہی کرتی ہے۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا بھارتی آئین 1950 میں بنا اس کے تحت آرمی ایکٹ بنا، بھارتی وزیر اعظم کو آرمی تعیناتی اور توسیع کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ ہمارے یہاں بد قسمتی سے وزیر اعظم ہاؤس اس آرمی چیف توسیع کا کو لیٹر جاری کیا گیا وہ مضحکہ خیز تھا، زبان بھی درست نہیں تھی، کابینہ اجلاس میں بھی سرسری سی سمری پیش کی گئی، پی ایم سیکرٹریٹ کے نالائق عملہ نے سارے معاملہ ہی مضحکہ خیز بنا دیا۔ آرمی چیف توسیع کے حوالےسے سپریم کورٹ میں ایک نام نہاد درخواست دائر کی گئی تو چیف جسٹس کو اسے فوری مسترد کرنا چاہیئے تھا، معاملے کو غلیظ طریقے سے ہینڈل کرنے سے پنڈورا بکس گھل گیا۔وزیر اعظم کو چاہییے تھا کہ اپوزیشن لیڈر کو ملاقات کی دعوت دیتے، اپوزیشن سے مذاکرات کرتے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرنی ہے،اپوزیشن اگر انکار کرتی تو کہہ سکتے تھے کہ رساست کے معاملے میں ساتھ نہیں دے رہی کیونکہ یہ انکار نہیں ریاست کے ساتھ تعاون تھا۔ وزیراعظم کی تضحیک کی گئی این آر او کا نام دیا گیا۔ پارلیمنٹ ایکٹ کے آتے تو سادہ اکثریت سے کام ہو جاتا آرٹیکل 243 میں ترمیم کرنا ہو تو دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔