counter easy hit

عمران خان نے عدالت میں کہا ہمارا کام الزام لگانا ہے، سلمان اکرم

حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا نے پاناما کیس میں دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نے عدالت میں کہہ دیا ہمارا کام الزام لگانا ہے، ان کی جانب سے کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا، اگر حسین نواز کچھ چھپا رہے ہوں تو کیا اس کی سزا وزیراعظم کو دی جا سکتی ہے؟

Imran Khan has asked the court to our task is to blame, Salman Akram

Imran Khan has asked the court to our task is to blame, Salman Akram

سپریم کورٹ میں پانامالیکس سے متعلق آئینی درخواستوں کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے کی۔ عدالت میں حسین نواز کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر حسین نواز کچھ چھپا رہے ہوں تو کیا اس کی سزا وزیراعظم کو دی جا سکتی ہے؟ اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت صرف غیر متنازعہ حقائق پر ہی فیصلہ دے سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے وکیل نے کہا جائیداد بچوں کی ہے ان سے پوچھیں،مریم سے پوچھا تو انہوں نے کہا وہ ٹرسٹی ہیں، اب آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس بھی کچھ نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کے بیٹوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ آپ بہت بڑا جوا کھیل رہے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں یہ جوا نہیں کھیلوں گا، جو معاملہ شیخ جاسم اور میاں شریف کے درمیان تھا اس کی توقع نہ کی جائے۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ سلمان اکرم صاحب خدا کا خوف کرو، کیوں مردہ لوگوں کو شہادت کے لئے لارہے ہو؟ کیا آپ کو قانون شہادت کا پتا نہیں، عدالت میں ایسے شہادتیں لائی جاتی ہیں، قطری شہزادہ خود مردہ لوگوں پر انحصار کررہا ہے، کیا اب ہمیں مردے آکر بتائیں گے؟ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ معاملہ اگر چیف ایگزیکٹو کا ہو تو کیا کیا جائے؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ چیف ایگزیکٹو اداروں کے سربراہ کا تقرر اپوزیشن کی مشاورت سے کرتے ہیں، عدالت اداروں کو تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے دوران سماعت کہا کہ اگر آپ عدالت کو دائرہ سماعت پر واپس جانے کا کہیں گے تو میں اس کا حامی نہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ واپس جانے کو تیار نہیں آگے بڑھنے میں ہمیں کوئی رکاوٹ نہیں۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ صرف قانون پرعملدرآمد کا کہہ رہا ہوں،عدالت 184/3کے مقدمے میں سزا نہیں دے سکتی، فیصلوں میں موجود ہے کہ عدالت نے درست تحقیقات کو یقینی بنایا، وزیراعظم کی تقریر کو دیکھنا ہے تو ریکارڈ کو سامنے رکھا جائے۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اس کہانی کا اہم حصہ قطری سرمایہ کاری ہے، وزیراعظم کی تقریر اور طارق شفیع کے بیان حلفی میں قطر میں سرمایہ کاری کا ذکر نہیں تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہر معاہدے میں بینک کا ذکر ہے، لیکن 12 ملین درہم کیش میں لے لیے۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، نقد رقم بھی لی جاتی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ مقدمہ اپنی نوعیت کا الگ کیس ہے۔ سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ شریف فیملی نے 1993 سے 1996 میں لندن کے فلیٹس نہیں خریدے، ان فلیٹس کی 1993 سے 1996 میں مجموعی پاکستانی مالیت 7 کروڑ روپے بنتی ہے۔ جسٹس گلزار نے استفسار کیا یہ فلیٹس شریف فیملی کے زیر استعمال کب آئے؟ سلمان اکرم راجا نے کہا یہ کوئی راز نہیں، شریف فیملی کے بچے شروع سے وہاں رہ رہے ہیں۔ اعجاز الاحسن نے استفسار کیاکہ 1993 سے 1996 میں آف شور کمپنیوں کا مالک کون تھا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ شریف فیملی اس وقت آف شور کمپنیوں کی مالک نہیں تھی، شریف فیملی نے فلیٹس 2006 میں خریدے۔ سماعت کے دوران ایک موقع پر جسٹس اعجاز الا حسن نے کہا کہ کیا 80 سے 85 برس کی عمر میں میاں شریف نے سرمایہ کاری سے متعلق اپنے بچوں کو آگاہ نہیں کیا تھا؟ سرمایہ کاری کی رقم 20 سال قطر پڑی رہی، کاروباری شراکت دار نے تفصیلات کیوں نہیں دیں؟ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ جاننا چاہتے ہیں کیا الثانی فیملی نے مشترکہ کاروبار سے فلیٹ خریدے؟ جاننا چاہتے ہیں میاں شریف کی رقم جو قطری رئیل اسٹیٹ بزنس میں گئی کیا اس سے فلیٹ خریدے گئے؟ کیا اس رقم میں میاں نواز شریف کا کوئی حصہ تھا؟ کیونکہ 2004 میں میاں شریف کی وفات ہوئی اور 2006 میں فلیٹ منتقل ہوئے، یا پھر ثانی فیملی نے مشترکہ کاروبار سے فلیٹ خریدے؟ پاناما پیپرکیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website