لاہور (ویب ڈیسک) صرف وزیراعظم عمران خان کے فی الحال پسندیدہ وزیراعلیٰ پنجاب اگلے روز ٹوبہ ٹیک سنگھ کے دورے پر گئے تو پروٹوکول کی دودرجن گاڑیوں نے اُن کی حفاظت کے فرائض بہت احسن بلکہ ”احسن گجر“ طریقے سے انجام دیئے۔ ہمارے حکمران بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ ”عجیب وغریب“ میں نے اِس لیے نہیں لِکھا کہ
نامور کالم نگار توفیق بٹ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ غریب بہرحال وہ نہیں ہوتے، ماضی میں اگر ہوں بھی تو حکمران بننے کے بعد وہ غریب نہیں رہتے۔ مگر غریبوں کو اپنے ساتھ وہ ضرور رکھتے ہیں۔ وہ اکثر فرماتے ہیں ”غریبوں کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں “، ….وہ اِسی لیے غربت ختم نہیں کرتے کہ اگر غریب نہ رہے اُن کے لیے دعائیں کون کرے گا؟ البتہ اپنی ”غربت“ مٹانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ وہ جب حکمران وغیرہ نہیں ہوتے، جب کوئی اُنہیں منہ لگانا یا اُن سے ہاتھ تک ملانا پسند نہیں کرتا، تب اُنہیں کِسی سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا، لیکن جیسے ہی وہ کِسی حکومتی منصب پر فائز ہوجاتے ہیں اُن کی زندگی کو فوراً خطرات لاحق ہو جاتے ہیں، …. ایک وزیر نے اپنے دوست سے کہا ”میں اپنے پروٹوکول میں اضافہ کروانا چاہتا ہوں، سمجھ نہیں آرہا یہ کام کیسے ممکن ہوگا ؟ ۔ دوست نے فرمایا ” اِس میں مشکل کیا ہے؟ خبر شائع کروادو تمہیں دھمکیاں مِل رہی ہیں، تمہاری زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں“،….وزیر نے ایسے ہی کیا پھر اگلے ہی روز اُس کے پروٹوکول اور حفاظتی عملے میں دُگنا اضافہ کردیا گیا ،….حکمرانوں اور وزیروں شذیروں کے پاس خود کو لاحق ”خطرات“ سے نمٹنے کا واحد حل یہ ہوتا ہے سرکاری خزانے پر بوجھ بن کر اپنے حفاظتی پروٹوکول کو وسیع کرکے عام لوگوں کے لیے شدید ترین مشکلات کا باعث بن جائیں۔ بلکہ اُن کی چیخیں نکلوادیں، جیسے ہی وہ کسی منصب پر فائز ہوتے ہیں، جیسے وزیراعلیٰ بزدار ہوئے ہیں، فوراً اُن کا ایمان تبدیل ہوجاتا ہے، وہ سمجھنے لگتے ہیں زندگی موت اللہ کے نہیں اُن بیسیوں گارڈز کے اختیار میں ہے جو پروٹوکول کی آڑ میں اُن کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں، ….پر موت کا وقت اِس کے باوجود ٹل نہیں سکتا،…. پنجاب کے ایک سینئر وزیر مخدوم الطاف حسین کی مثال تاریخ میں زندہ ہے۔ وہ حفاظتی عملے اور پروٹوکول کی بیسیوں گاڑیوں کے قافلے میں جی او آر لاہور سے نکل کر سیکرٹریٹ اپنے دفتر کی جانب رواں دواں تھے، اچانک اُن کے سینے میں شدید درد اُٹھا ۔ دِل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا، گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا باڈی گارڈ اور گاڑی کے پیچھے بیسوں افراد پر مشتمل حفاظتی عملہ اور گاڑیاں موت کے فرشتے کو آتے ہوئے دیکھ سکے نہ مخدوم صاحب کی جانب لے جاتے ہوئے دیکھ سکے …. وزیراعظم عمران خان فرماتے ہیں ”بزدار بڑا سادہ انسان ہے “۔اگلے روز آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی بھی یہی فرمارہے تھے کہ ”وہ بڑا عاجزانسان ہے“ ….میں سوچ رہا تھا ابھی وہ سادہ اور عاجز ہیں تو اُن کا یہ حال ہے کہ پروٹوکول اور حفاظتی عملے کے ناجائز استعمال بالکل غلط نہیں سمجھتے ۔اگر وہ ”سادہ“ اور ”عاجز“ نہ ہوتے تو اپنے آنے جانے والے راستوں پر شاید کرفیو لگوا دیا کرتے ….انتخابات سے پہلے تبدیلی کے جتنے دعوے پی ٹی آئی نے کئے تھے، یا جتنے نعرے لگائے تھے کوئی ایک منزل تک نہیں پہنچا۔ ابھی سارے ”پائپ لائن“ میں ہیں اور پائپ جگہ جگہ سے ”لیک“ ہورہا ہے، جیسے شیخ رشید جیسا نسلی ”لوٹا“ اب آہستہ آہستہ ” لیک “ ہورہا ہے، اتنا متکبرانسان پاکستان کی سیاست میں شاید ہی کوئی ہوگا۔ اور اتنا جھوٹا بھی شاید ہی کوئی ہوگا، بلکہ میرے خیال میں کوئی غیرجانبدار ادارہ یا عدالت اُس کے اور شریف برادران کے جھوٹ اور تکبر کو تولے تو شیدے ٹلی کا پلڑا یقیناً بھاری نکلے گا۔ اب اللہ جانے کس کے اشارے پر عمران خان کی سیاست کا بیڑا غرق کرنے کی اُس نے ابتدا کردی ہے، ابھی تو عمران خان شکر کریں وہ اُن کی جماعت میں باقاعدہ طورپر شامل نہیں ہوا ورنہ ایک اور ”جاوید ہاشمی“ کا سامنا اُنہیں کرنا پڑجاتا۔ فرق صرف یہ ہوتاجاوید ہاشمی اندر سے شریف برادران کا تھا، اور شیخ رشید اندر سے کِس کا ہے کِس کِس کا ہے ؟آج تک اپنی طرف سے اُس نے پتہ ہی نہیں لگنے دیا، ہمیں مگر سب پتہ ہے، اب وہ ہاتھ دھوکر اور منہ دھوئے بغیر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے پیچھے شاید اِس ”جیلسی“ کے تحت پڑا ہوا ہے کہ تکبر اور فنکاریوں میں شہباز شریف اُس سے تھوڑا آگے کیوں ہے ؟…. جہاں تک وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا تعلق ہے وزیراعظم عمران خان لاکھ اپنا پسندیدہ قرار دے لیں، وہ جتنے چاہیں اُن کی ناجائز تعریفوں کے پُل باندھ لیں، یہ بات بلکہ یہ حقیقت عثمان بزدار بھی جانتے ہیں وزیراعظم کو ”یوٹرن“ لیتے ہوئے ذرا دیر نہیں لگتی ، لہٰذا وزیراعلیٰ بزدار کو چاہیے وہ خان صاحب کی باتوں میں آکر خود کو خودبخود ہی پانچ برسوں کے لیے پکا وزیراعلیٰ نہ سمجھنا شروع کردیں، بہت جلد اُنہیں ”آنے والی تھاں“ پر واپس آنا ہے، ….اللہ کی شان ہے جو شخص کل ایک پٹواری کے تبادلے کے لیے ڈپٹی کمشنروں کے دفتروں کے باہر گھنٹوں انتظار کرنے کے عمل کو ذرا نامناسب نہیں سمجھتا تھا آج ” عوامی شکایات“ پر ڈپٹی کمشنروں کو بغیر انکوائری کے تبدیل کرنے میں پل نہیں لگاتا، جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے اپنی طرف سے وہ شہباز شریف بننا چاہتا ہے،….جو ”ماچس“ قدرت نے آزمائش کے طورپر اُن کے ہاتھ میں شاید پہلی اور آخری بار دے دی ہے اللہ جانے کیوں اُس سے وہ وزیراعظم عمران خان کے تقریباً سارے خوابوں اوروژن کو جلا کر راکھ بنادینے کی کامیاب کوشش کررہے ہیں، جس کا احساس خان صاحب کو آج نہیں تو کل ضرور ہو جائے گا ….”خود ساختہ عوامی شکایات“ پر افسروں کو تبدیل یا معطل کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بزدار پل نہیں لگاتے، مگر عوام کو جوشکایات خود اُن سے ہیں اُمید ہے اُس کا نوٹس وہ کبھی نہیں لیں گے، اُنہیں چاہیے کسی روز خوشاب کا دورہ بھی کریں، جہاں اپنے قریبی عزیز کو اُنہوں نے ڈپٹی کمشنر تعینات کررکھا ہے۔ گھر گھر اُس کی کہانیاں ہیں کہ اپنی ”غربت“ مٹانے کا اہتمام وہ اس قدر دلیری سے کرتا ہے جیسے ”نیب“ اُس کے چاچے کے پُتر کی ہو،…. رشتے داروں کو نہ نوازنے کے عمل کو صرف اور صرف وزیراعظم عمران خان نے ہی خود پر حرام قرار دے رکھا ہے جبکہ پی ٹی آئی کی باقی ساری قیادت کو اِس معاملے میں کُھلی چُھٹی ہے، ….وزیراعظم عمران خان وزیراعلیٰ بزدار کے بارے میں بار بار فرماتے ہیں وہ شہباز شریف کی طرح لُوٹ مار نہیں کرے گا،یقیناً ایسے ہی ہوگا، مگر ممکن ہے ”بزداراعلیٰ“ کی نااہلی سے پنجاب کو مالی طورپر نقصان شہباز شریف کی ُلوٹ مار سے زیادہ ہو جائے، بظاہر وہ ایک سیدھے سادھے سے بھولے بھالے سے انسان محسوس ہوتے ہیں مگر اپنی ”گنڈ“ کے وہ کتنے پکے ہیں اُن کے قریبی دوست احباب اور افسران اس حوالے سے نجی محفلوں میں جو واقعات سناتے ہیں وزیر اعظم عمران خان کے نوٹس میں آجائیں مجھے یقین ہے اُس کے بعد وہ اُنہیں کم ازکم سیدھا سادہ اور بھولا بھالا انسان قرار نہیں دیں گے، …. ویسے میں سوچ رہا تھا پروٹوکول وغیرہ انجوائے کرنا اِس حوالے سے وزیراعلیٰ بزدار کی شاید ”مجبوری“ ہے اِس طرح کم ازکم وہ وزیراعلیٰ تولگتے ہیں۔ بغیر پروٹوکول کے وہ کہیں جائیں تو زیادہ سے زیادہ کِسی فلاپ فلم کے کامیڈین ہی لگیں گے، …. اصل میں اُن کا بھی کوئی قصور نہیں، وہ بے چارے ”گل پیا ڈھول“ اِس انداز میں بجارہے ہیں ڈھول بجتا ہوا کم پھٹتا ہوا زیادہ محسوس ہوتا ہے …. کبھی کبھی مجھے اُن پر بڑا ترس آتا ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کسی روز وزیراعظم عمران خان کو بھی اُن پر ترس آجائے اور وہ اُن کے ہاتھ سے ماچس چھین کر اُنہیں دوبارہ فرصت کے وہ لمحات عنایت فرمادیں جس میں اُنہیں سوچنے کا موقع مِل سکے آئندہ کسی پارٹی میں اُنہیں شمولیت اختیار کرنی ہے؟ ویسے وزیراعلیٰ پنجاب بن کر جو کچھ وہ کررہے ہیں مجھے یقین ہے وہ دوبارہ نون لیگ میں ہی جائیں گے جہاں سے پوری طرح ابھی وہ شاید نکلے ہی نہیں