تفصیلات کے مطابق مسلم امہ اس وقت بہت سے اندرونی اور بیرونی مسائل کا شکار ہے۔مختلف ممالک میں جاری خانہ جنگی نے مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کر دیا ہے۔شام میں جاری خانہ جنگی نے جہاں مسلمانوں میں تفرقے کو ہوا دی ،وہیں شام اور وعراق میں داعش کے فتنے نے امت مسلمہ کو شدید پریشانی سے دوچار کیا۔اس سارے حالات میں سب سے بڑا مسئلہ جس نے امت مسلمہ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا وہ سعودی ،یمن جنگ کا مسئلہ تھا۔عالم اسلام کے دو اہم ترین ممالک سعودی عرب اور ایران اس جنگ میں ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوئے تھے۔ایک جانب عالمی تنظیموں کی جانب سے جہاں سعودی عرب کو جنگی جرائم میں ملوث قرار دیا جارہا تھا وہیں سعودی عرب اور اس کے حلیف ممالک یمن میں جاری بغاوت کو ایران کی کارستانی قرار دے رہے تھے۔یمن جنگ سے پاکستان بھی متاثر ہوا ،ایسا تب ہوا جب سعودی عرب نے یمن جنگ میں پاکستانی فوجسے معاونت چاہی مگر پاکستان نے اپنے داخلی مسائل اور غیر جانب دار خارجہ پالیسی کے سبب ایسا کرنے سے منع کردیا ۔اس معاملے پر پاکستان کے خلیجی ممالک سے تعلقات میں دراڑ بھی آئی اور تھوڑی تلخی بھی بڑھی۔تاہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں سعودی عرباور پاکستان میں نئے دور کا آغاز ہوا ہے اور اسکی سب سے بڑی علامت وزیر اعظم پاکستان کا کامیاب دورہ تھا۔وزیر اعظم عمران خان کے دورے کے دورانسعودی عرب کی جانب سے پاکستان پر کی جانے والی مہربانیوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جارہا تھا۔تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ وزیر اعظم نے کسی بڑی ڈیل کے تحت سعودی عرب سے یہ رعایتیں حاصل کی ہیں۔یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ شائد پاکستاناپنی خود مختاری کا سودا کرکے اور یمن جنگ میں حصہ بننے کی شرط پر سعودی عرب سے یہ تمام رعایتیں حاصل کررہا ہے۔تاہم اس حوالے سے وزیر اعظم نے دورہ سعودی عرب کے بعد اپنے پہلے ہی خطاب میں تمام خدشات کو غلط ثابت کردیا۔وزیر اعظم نے قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے یمن جنگ کے حوالے سے اپنا موقف واضح کر دیا۔وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میں یہ بات واضح کردوں کہپاکستان یمن جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔سعودی ،یمن جنگ کی وجہ سے امت مسلمہ شدید تکلیف میں ہے اور میں آپکو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس جنگ میں ثالث بن کر اس جنگ کو ختم کروائیں گے۔انہوں نے اس موقع پر اعلان کیا کہ وہ یمن جنگ کو ختم کرنے کے لیے تمام مسلم ممالک کو جلد ہی اکٹھا کریں گے۔مسلم امہ کو اکٹھا کرنے کا یہ اعلان بڑا معنی خیز ہے۔اگر وزیر اعظم عمران خان ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے بعد دوسرے پاکستانی وزیر اعظم ہوں گے جو مسلم امہ کے بڑے اور طاقتور ترین رہنما بن کر سامنے آ سکتے ہیں۔اس سے نہ صرف مسلم امہ کو ایک بار پھر اکٹھے ہونے کا موقع ملے گا وہیں پاکستان بھی مسلم امہ کا نیا رہنما بن کر ابھرے گا اور پاکستان کا اسلام کا قلعہ ہونے کا تاثر مزید تقویت پائے گا۔یاد رہے کہ اس سے پہلے سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر عالم اسلام کی قیادت کو لاہور میں اکٹھا کیا تھا۔