تحریر: سید انور محمود
عمران خان کرکٹ کےایک اچھے کھلاڑی تھے، ایک اچھے سوشل ورکر بھی ہیں جسکا ثبوت شوکت خانم کینسر ہسپتال ہے، وہ ایک اچھے تعلیمی ریفامر بھی ہیں نمل یونیورسٹی اسکی مثال ہے، لیکن ایک سیاست دان کی حیثیت سے وہ قطعی ناکام ہیں، کبھی وہ طالبان کے حامی ہوتے ہیں تو کبھی مغربی نظام کے، کبھی وہ اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں اور کبھی شدت پسندی کا پرچار کرتے ہیں، لا تعداد یو ٹرن لینے والے عمران خان ایک سیاست دان کی حیثیت سے گذشتہ 19 سال سے اپنی نامعلوم منزل ڈھونڈ رہے ہیں۔
اب جب انہیں منزل نہیں مل رہی تو وہ اپنی ناکامیابی کا اقرار کرنے کے بجائے پاکستان کو کوس رہے ہیں، وہ اپنے آپ سے اتنے مایوس ہوچکے ہیں کہ آج علامہ اقبال اور قائداعظم سے زیادہ اُنہیں مہاتما گاندھی اورمولانا ابوالکلام آزاد بڑے لیڈر لگ رہے ہیں۔ لاہور میں 25 نومبر2015ء کوتحریک انصاف یوتھ ونگ کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا تھا کہ” علامہ اقبال اور قائداعظم کی سوچ میں جو پاکستان تھا وہ نہیں بنا، اگر یہی پاکستان بننا تھا تو اس سے بہتر تھا کہ نہ بنتا”، ہم غلط راستے پر چلے گئے ہیں۔ عمران خان نے مزید فرمایا کہ مہاتما گاندھی بڑئے لیڈر تھے، ہمیں یہ ماننا چاہئے کہ انہوں نے آزادی کی جنگ لڑی۔ غفار خان اور مفتی محمود بھی بڑئے لیڈر تھے۔ وہ کہتے تھے کہ پاکستان نہیں بننا چاہیے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ پاکستان بنا تو یہ کچھ ہوگا پھر وہی کچھ ہوا۔ ہم ملک میں اچھے برئے کی تمیز ختم کر بیٹھے ہیں۔
پاکستان بنتے وقت غفار خان ، مفتی محمود اورمولانا مودودی (جنکا شاید نام لینا عمران خان بھول گے) اور اُنکے حامی پاکستان بننے کے قطعی حق میں نہیں تھے۔ لیکن بعد میں اپنی باقی زندگی ان لوگوں نے پاکستان میں ہی گذاری۔ غفار خان جنکو سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا تھا اپنی ساری زندگی پاکستان مخالفت میں گذاری اور مرنے کے بعد پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا۔عمران خان کے بقول انکے بدترین سیاسی حریف مولانا فضل الرحمان کے والدمفتی محمود بڑئے لیڈر تھے اور یہ اس ہی بڑئے لیڈر کا فرمانا تھا کہ وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے لیکن جب موقعہ لگا تو محترمہ فاطمہ جناح کو عورت کہہ کر ایوب خان سے سودئے بازی کرلی اور اپنا ووٹ اُسے دے دیا۔ 1970ء کے انتخابات میں سرحد اسمبلی (موجودہ خیبر پختونخوا اسمبلی) کی چالیس اراکین کی اسمبلی میں مفتی محمود کی جماعت جمعیت علمائے اسلام نے سرحد اسمبلی میں چار نشستوں پر کامیابی حاصل کی اورپاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہ ہونے والے مفتی محمود غیر جمہوری طریقے سے صوبہ سرحد (موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا) کے وزیر اعلیٰ بن بیٹھے۔
مفتی محمود کے بیٹے مولانا فضل الرحمان کا بھی کافی جھکاوُ بھارت کی طرف ہے، پاکستان میں وہ ایک موقعہ پرست سیاست دان کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ مولانا مودودی قیام پاکستان کے خلاف تھے۔ چنانچہ لکھا کہ “پس جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہو جائیں۔۔۔ اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہوگا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی۔
عمران خان وہ پہلے پاکستانی نہیں ہیں جنہوں نے اپنی ناکامیوں پر پاکستان کو برا کہا ہو، اس سے پہلے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین بھی پاکستان کے خلاف کافی زہر اگل چکے ہیں۔ 2006ء میں الطاف حسین نے دہلی میں ایک تقریر کرتے ہوئے متحدہ ہندوستان کی تقسیم کو ایک بہت بڑی غلطی قرار دیا تھا۔ یکم اگست 2015ء کو امریکا کے شہر ڈیلاس میں ایم کیوایم امریکا کے سالانہ کنونشن کے موقع پر ٹیلی فونک خطاب میں الطاف حسین نے نہ صرف پاک فوج کے خلاف بلکہ تمام مسلم فوج کے خلاف بھی زہر اگلا، الطاف حسین نے کہا کہ اگر بھارت میں ذرا بھی غیرت ہوتی تو پاکستان میں مہاجروں کا قتل نہ ہوتا۔
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کافی عرصہ سے روزنامہ جنگ میں مضامین لکھ رہے ہیں، اُنکےمضامین کبھی سماجی اور کبھی سیاسی ہوتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر سال 2013ء میں 28 اکتوبر سے 13 دسمبر تک ڈاکٹر صاحب اپنےپانچ مضامین میں پاکستان کے کٹر مخالف مولانا ابوکلام آزاد کے ہم خیال بنے ہوئے تھے اور مولانا ابوکلام آزاد کی پاکستان مخالف تحریروں کی حمایت کررہے تھے۔ جبکہ ڈاکٹر صاحب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناع مولانا آزاد کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ ان مضامین کے بعد جب اُن پر بھرپور تنقید کی گئی تو انہوں نے یہ سلسلہ بند کیا۔
اپنے آپ کو قائداعظم جیسا لیڈر کہلانے والے عمران خان کی سوچ کا معیار یہ ہے کہ وہ مہاتما گاندھی اور ابوالکلام آزاد کی تعریف کرتے ہوئے یہ بھی فرماتے ہیں کہ”اگر یہی پاکستان بننا تھا تو اس سے بہتر تھا کہ نہ بنتا”، اُنکے حامی ایک کالم نگار کو انکی یہ بات قطعی پسند نہیں آ ئی اور اُس نے لکھا ہےکہ “یقیناً مہاتما گاندھی اور ابوالکلام بڑئے لیڈر تھے لیکن وہ اپنی قوم کے لئے بڑے لیڈر تھے۔ جیسے ابوجہل، ابو لہب اور عتبہ و امیہ وغیرہ کفارانِ مکہ کے بڑئے لیڈر تھے، لیکن ہمارئےبڑئے لیڈر قائداعظم تھے”۔ پاکستان بنتے وقت کے چشم دید گواہ اب بھی موجود ہیں۔ جنہوں نے خون کی ہولی کھیلتے ہوئے لوگوں کو دیکھا۔ اکثریت میں ہوتے ہوئے جس طرح مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا ۔۔۔ دہلی وہ تو گاندھی کا شہر تھا۔ اس میں کیوں مسلمانوں کی لاشیں سڑکوں پر بے گوروکفن پڑی رہیں۔
مسلمانوں کی لاشیں دفنانے کی کسی کو اجازت نہیں تھی۔۔۔ہندو اور سکھ غنڈے سرعام گھومتے اور دہلی جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت تھی، پولیس اور فوج کی موجودگی میں مسلمان بیٹیوں کو چھیڑتے۔۔۔ اور قتل کرنے کے بعد لاش کو آگ لگا دیتے کہ ان کے مذہب میں دفنانا جائز نہیں ہے۔ قائد اعظم ابوالکلام آزاد کو کانگریس کا شو بواے کہتے تھے۔ نو سال تک کانگریس کا صدر رہنے والا ابوالکلام آزاد غدارے مسلم تھا اور ہندوں کا ساری عمر وفادار رہا حتیکہ جب یہ وزیرتعلیم تھا اس وقت ہی سے ہندوستان کی تاریخ میں سے مسلمانوں کے اصل کردار غائب ہوتے رہے اور مسلمان حکمرانوں کو غاصب، لٹیرے اور حملہ آور لکھا گیا اور آج بھِی ہندوستان کی تاریخ میں یہ ہی لکھا ہوا ہے۔
اگر پاکستان نہ ہوتا تو گجرات جیسے فسادات روز کا معمول بن جاتے ہیں۔ چھوٹے بچوں اور عورتوں کو قتل کیا جاتا رہتا۔ آج بھارت میں مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے، بھارت میں بی جے پی کی نریندر مودی حکومت کی حمایت سے ہندو دھرم کے نام پر انتہاپسند تنظیموں شیوسینا اور راشٹریہ سیوک سنگھ وغیرہ نے مسلمانوں اور دوسری مذہبی اقلیتوں کے خلاف منافرت، اشتعال انگیزی اور قتل و غارت کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ 28 ستمبر 2015ء کو نئی دہلی کے قریب ایک گائوں میں مشتعل ہندوئوں کے ہجوم نے ایک50سالہ لوہار محمد اخلاق کو گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں قتل کر دیا اور بیٹے دانش کو بری طرح زدوکوب کیا اس کے بعد سے چند مسلمان ٹرک ڈرائیورز گائے اسمگل کرنے کے الزام میں قتل کر دیئے گئے۔
ممبئی میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی کے میزبان کے چہرے پر سیاہی پھینک دی گئی۔ ممبئی میں فن کا مظاہرہ کرنے پر استاد غلام علی کو ہراساں کیا۔ بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر نے پاکستانی ہم منصب شہریار خان سے ملنے سے انکار کیا۔ امپائر علیم ڈار کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی گئیں جس پر انہیں ممبئی میں بھارت، جنوبی افریقا ایک روزہ میچ کی امپائرنگ سے دستبردار کرا دیا گیا۔
سونیا گاندھی کی قیادت میں جب کانگریس نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو کانگریس کے باقی رہنما سونیا گاندھی کو بھارت کا وزیراعظم بنانا چاہتے تھے لیکن بھارت کی انتہا پسند موجودہ وزیر خارجہ سُشماسوراج نے اعلان کیا کہ چونکہ سونیا گاندھی اصل بھارتی نہیں ہیں اس لیئے اگر اُنکو بھارت کا وزیراعظم بنایا گیا تو وہ اپنے سر کے تمام بال اتروادینگیں، لہذا اُسکے بعد ہی منموہن سنگھ کو وزیراعظم بنایا گیا۔ دسمبر2014ء میں نئی دہلی میں ایک انتخابی ریلی کے دوران مودی کی ایک خاتون وزیر سدھوی زنجن جیوتی نے بھارتی مسلمانوں کو ملک کی “ناجائز اولاد” قرار دیا۔
مودی نے انہیں اپنی کابینہ سے نہیں نکالا اور خود پارلیمنٹ سے معذرت پر اکتفا کیا۔ آپ کو بھارت کی بالی ووڈ کے علاوہ اور کہیں مسلمان سر فہرست نظر نہیں آئیں گے۔لیکن ان اداکاروں کی وفاداری بھی مشکوک قرار دی گی ہے۔ پاکستان بنانے کا شکریہ جناح صاحب، اگر پاکستان نہ بنا ہوتا تو آج ہم انتہاپسند شیوسینا کے غنڈوں کے رحم و کرم پر ہوتے، لیکن موجودہ پاکستان کی خرابیوں کے ذمہ دار آپ نہیں بلکہ ہمارے وہ سول اور فوجی حکمران ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی فاہدئے کےلیے ملک کے مفاد کو نقصان پہنچایا۔ عمران خان کو اگر شکوہ کرنا ہے تو ان سے کریں جو پاکستان کو اس حالات میں لانے کے ذمہ دار ہیں۔
چار نومبر 2015ء کو اسلام آباد میں سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کے دوران وزیراعظم نوازشریف نے کہا تھا کہ “عوام کا مستقبل جمہوری اور لبرل پاکستان میں ہے”، وزیر اعظم کے اس بیان کے فوراً بعد جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ایک بیان میں کہا کہ جسے لبرل ازم کی چاہت ہے وہ امریکہ چلا جائے۔ اس سے پہلے سراج الحق لوگوں کو ممبئی جانے کا مشورہ بھی دے چکے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سراج الحق عمران خان کے اس بیان کے بعد اُنہیں گاندھی کےد یس بھارت جانے کا مشورہ دے دیں۔
ایسا شاید نہ ہو کیونکہ وہ اُس جماعت کے سربراہ ہیں جس کے بانی مولانا مودودی تھے، دوسرے وہ عمران خان کے سیاسی اتحادی بھی ہیں۔اگر پاکستان نہ بنا ہوتا تو شوسینا کے دستے عمران خان کے گھر کا گھیراوُ کئے ہوتے اور انہیں الٹی میٹم دے رہے ہوتے کہ اگر زندہ رہنا ہے تو ہمارا دھرم اختیار کرلو۔ عمران خان کے اس بیان پرپاکستان میں کافی مخالفت بڑھ رہی ہے اور بڑھے گی، اگر عمران خان اپنے آپ کو گاندھی کا چیلہ نہیں کہلوانا چاہتے ہیں تو بہتر ہوگا کہ عمران خان اپنے اُس بیان کو واپس لیکر پوری قوم سے معافی مانگیں جو انہوں نے لاہور میں 25 نومبر2015ء کوتحریک انصاف یوتھ ونگ کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ “اگر یہی پاکستان بننا تھا تو اس سے بہتر تھا کہ نہ بنتا” کیونکہ اُنکا یہ بیان حقیقت سے بہت دور ہے۔
تحریر: سید انور محمود