ڈرامہ سیریل ’’نمک ‘‘ ختم ہونے سے بہت پہلے میں نے نئے ڈرامے ’’ماکا‘‘پر کام شروع کردیا تھا۔ اسے معروف کالم نگارہارون الرشید نے لکھاہے۔ ڈائریکٹ میں کررہا ہوں ۔یہ ڈرامہ بلوچستان کے پس منظر میں ہے۔اِس کی کہانی ناراض بلوچوں کے اردگرد گھومتی ہے۔آئی ایس پی آر کا شکریہ کہ جن کی مدد سےیہ مشکل کام آسان ہوا۔شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ سےہر لمحہ میری آنکھیں بلوچستان پر لگی رہتی ہیں ۔ایک ترقی یافتہ سرسبز و شاداب بلوچستان ،پاکستان کے اچھے مستقبل کی ضمانت ہے ۔وہاں مکمل امن ہم سب کی ضرورت ہے ۔وہاں کے لوگوں کی محرومیوں کا خاتمہ ہم پاکستانیوں کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے ۔وہاں غربت کا خاتمہ ہو ۔ وہاں تعلیم عام ہو۔زندگی کی تمام سہولتیں ہر گھر کے دروازے تک پہنچیں ۔گوادر جلد سے جلد ایک جدید تر آباد بندر گاہ میں بدل جائے ۔یہ سب باتیں نئے پاکستان کےلئے انتہائی ضروری ہیں ۔میں شاید اِسی لئے وہاں ہونے والی معمولی سی تبدیلی کا بھی پورے دھیان سے مطالعہ کرتا ہوں ۔جب وہاں نون لیگ کی حکومت ختم ہوئی تومیں اُس کے اسباب تلاش کرنے لگا۔اِسی تلاش نے خبر دی کہ اب وفاقی حکومت کے فوری خاتمے کا امکان ختم ہو چکا ہے ۔دراصل سیاست کے ستارہ شناس دیکھ رہے تھے کہ اگلے منظر نامے میں نون لیگ کہیں موجود نہیں ۔دوسری طرف انہیں سینیٹ کے انتخابات میں نون لیگ کی کامیابی بھی واضح نظر آرہی تھی کیونکہ عددی برتری اُس کے پاس تھی ۔سو انہیں اپنے زائچوں میں سینیٹ کے انتخابات سےپہلے پہلے حکومت کا خاتمہ دکھائی دینے لگا۔گلی گلی میں بساطِ جمہوریت لپیٹ دیئے جا نے کی پیشین گوئیاں ہونے لگیں مگر جب اچانک بلوچستان میں نون لیگ کی حکومت فارغ کر دی گئی تو بدلتے ہوئے منظر نامے کو دیکھنے والوں نے آنکھیں ملنا شروع کر دیں۔ لاڑکانہ سے لڑکھڑاتی ہوئی آواز آئی ،ایک زرداری سب پہ بھاری ۔نو سال سے مسلسل سینیٹ میں براجمان پیپلز پارٹی پھر سینیٹ پر مسلط ہوتی دکھائی دی۔حیرت انگیز طور پرمیاں محمد نواز شریف نے فوری طور پر شکست تسلیم کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کا عندیہ دےدیا اور عمران خان کے کان کھڑے ہو گئے۔انہیں پھر کسی لوٹ مار چھپانے والے میثاق کی بدبو آنے لگی ۔انہوں نے ایک منجھے ہوئے سیاست دان کی طرح سینیٹ کو پیپلز پارٹی اور نون لیگ سے نجات دلانے کی منصوبہ بندی کی اور کامیاب ہو گئے ۔ وہ کوئٹہ گئے ،آزاد سینیٹروں سے کھلی فضا میں کھلی کھلی بات کی اور کہا :میری آنکھیں کسی خوش بخت بلوچ کو چیئرمین سینیٹ بنتے ہوئے دیکھ رہی ہیں۔میں آپ کےلئےاپنے سینیٹر ز کے ووٹ تحفے کے طور پر لایا ہوں۔تحفہ قبول کر لیاگیا۔زرداری جو اپنے سیاسی دائو پیچ کے سبب ،سب پہ بھاری سمجھا جارہا تھا۔ نواز شریف جسے اپنی عددی برتری کا زعم تھا۔دونوں منہ دیکھتے رہ گئے ۔ زرداری نے بھاگتے چور کی لنگوٹی کو غنیمت سمجھتے ہوئے سلیم مانڈی والا کو ڈپٹی چیئرمین بنوالیامگر تاریخ، اِس تاریخ ساز واقعہ کو نہیں بھول سکتی کہ عددی برتری کے باوجود سینیٹ سے پیپلزپارٹی اور نون لیگ فارغ ہوگئیں۔عمران خان زندہ باد۔
دوستو! تم مانو یا نہ مانو ۔ عمران خان کسی فردِ واحد کا نام نہیں ۔ جمہوریت کی ایک زندہ و تابندہ تحریک کا نام ہے۔ پاکستان کےلئے ایک دھڑکتے ہوئے دل کا نام ہے۔یہ دھڑکتا ہوا دل ۔یہ زندہ و تابندہ تحریک ہم سب سے مطالبہ کر رہی ہے کہ آئو مل کر نئے پاکستان کی تعمیر کریں، ایک ترقی یافتہ پاکستان کی، ایک ایسے پاکستان کی جہاں کوئی بھوکا نہ رہے، جہاں ہر شخص کو چھت میسرہو اور جہاں ہر آدمی کے پاس تمام ضروریاتِ زندگی ہوں ۔جہاں ہر پیدا ہونے والے کی ذمہ داری حکومت پوری کرے۔پی ٹی آئی کے کارکن اس مقصد کےلئے ہر لمحہ عمران خان کی قیادت میں آگے بڑھ رہے ہیں وہ عمران خان کے کئی فیصلوں پر ملول بھی ہوتے ہیں مگر سینیٹ میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی شکست پر خوش ہیں ۔انہیں یہ مسئلہ نہیں کہ سینیٹ کا چیئر مین کو ن بنا ہے ،ان کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کا تعلق ان دونوں پارٹیوں سے نہیں جنہوں نےاپنی کرپشن چھپانے کے لیے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے تھے ۔سینیٹ میں اپنی شکست پر اس وقت آصف علی زرداری تلملا رہے ہیں ۔ کوشش میں ہیں کہ کسی طرح شیری رحمان کو اپوزیشن لیڈر ہی بنوالیں ۔پی ٹی آئی نے بھی اعظم سواتی کو سامنے کھڑا کردیا ہے ۔غالب امکان یہی ہے کہ اعظم سواتی جیت جائیں گے ۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شیری رحمان جیت جائیں مگر جیت اُس زخم کا مداوا نہیں ہو سکتی جو پیپلز پارٹی کے سینے پر لگ چکا ہے۔ اب یار لوگ لاکھ میر صادق سنجرانی کا بطور چیئرمین سینیٹ انتخاب ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے رہیں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔خدانخواستہ سنجرانی چیئرمین نہ رہا تو بلوچستان کا کوئی اور آزاد سینیٹر چیئرمین بن جائےگا ۔کھیل واپس پیپلز پارٹی یا نون لیگ کے پاس نہیں آ سکتا ۔بے شک اپنی شکست کا نون لیگ کو بھی بہت دکھ ہے ۔دکھ ہونا بھی چاہئے ۔آدمی جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے ۔
نواز شریف ابھی تک یہی سوال کئے جا رہے ہیں کہ عمران خان کو سنجرانی ہائوس کا پتہ کس نے بتایایعنی ان کے خیال کے مطابق اِس سینیٹ میں نون لیگ کی شکست کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے اوروہ اس بات پر قوی یقین رکھتے ہیں ۔کیوں نہ رکھیں ۔ماضی میں ان کی ہر فتح کے پیچھے یہ اسٹیبلشمنٹ رہی ہے ۔ اصغرخان کیس کی گواہی بہت ہے ۔اگر عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ سے تعلق ہوتا تو دوہزار تیرہ میں نون لیگ نہیں تحریک انصاف حکومت بناتی ۔دوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں یقینی طور پر یہی نظر آرہا ہے کہ تحریک انصاف فتح یاب ہوگی کیونکہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ نےغیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ شاید اس فیصلے کے پس منظر میں نون لیگ کی حکومت کے وہ فیصلے اہم کردار ادا کررہے ہیں جنہوں نے پاکستان کی جڑوں کھوکھلا کرنے کی کوشش کی ۔انڈیا کے ساتھ خفیہ مراسم اور ڈان لیکس کا معاملہ کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔
نون لیگ کی تحقیقات میں مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی سے تین لوگوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا ۔جن میں سینیٹر طلحہ، مولوی فیض محمد اور مولانا عطاالرحمٰن شامل ہیں ۔مولانا عطا لرحمٰن مولانا فضل الرحمٰن کے چھوٹے بھائی ہیں ۔ان کے ووٹ نہ دینے کا مطلب یہی ہوا کہ نواز شریف کےاہم ترین اتحادی نے بھی وقت پر اُن کا ساتھ نہیں دیا۔ عمران خان نے ایسا دائو کھیلا کہ اُن کا بدترین مخالف بھی اُس سے بچ نہ سکا ۔نون لیگ نے اپنی سینیٹر کلثوم پروین پربھی الزام لگا یا ہے کہ اُنہوںنے راجہ ظفر الحق کو ووٹ نہیں دیا ۔نواز شریف سینیٹ کاچیئرمین راجہ ظفر الحق کو نہیں بنانا چاہتے تھے انہوں نے اس کا اعلان شہباز شریف کے پُرزور اصرار پر کیا تھا ۔شاید انہیں اندازہ تھا کہ راجہ ظفر الحق کو خود نون لیگ کے کئی سینیٹرز ووٹ نہیں دیں گے ۔بہر حال سینیٹ کے انتخابات میں عمران خان کی دانش سب پر بھاری رہی ۔
سینیٹ میں تبدیلی کے موجودہ عمل کو دیکھ کر سیاست کے ستارہ شناس کہہ رہے ہیں کہ اِس سینیٹ سے کوئی بہت اہم کام لیا جانے والا ہے ۔انتخابات لیٹ ہونے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں ۔نگران حکومت کا دورانیہ مقرر ہ وقت سے بڑھ سکتا ہے مگر یہ ساری باتیں افواہوں کے ذیل میں آتی ہیں ۔یقینی بات یہی ہے کہ وقت مقررہ پرصاف شفاف انتخابات ہوں گے اور تحریک انصاف حکومت بنائے گی ۔