تحریر: سید انور محمود
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے2013ء کے انتخابات کے بعد کہا تھا کہ ہم نے انتخابات قبول کیے ہیں لیکن دھاندلی قبول نہیں کی ۔ عمران خان نے قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ حکومت عوام کے اعتماد کے لیے صرف چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی جانچ کرائے جس پر حکومت کی جانب سے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ ہم چار نہیں چالیس حلقوں میں نشانات کی جانچ کرانےپر تیار ہیں۔ لیکن ایک سال تک جب ایسا نہیں ہوا تو تحر یک انصاف نے گیارہ مئی 2014ءکو حکومت کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا۔ گزشتہ سال 14 اگست 2014ء سے 16 دسمبر 2014ء تک عمران خان احتجاج، جلسے اور دھرنے کی سیاست کرتے رہے۔ اسلام آباد کے 126 دن کے دھرنے میں روزانہ کنٹینر پر کھڑے ہوکروہ نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کرتےرہے، ان دھرنوں کی وجہ سے پاکستان کو بے انتہا سیاسی اور معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔
نواز شریف نے 12 اگست کو “آزادی مارچ” سے پہلے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا اعلان کر دیا تھا لیکن انہوں نے عمران خان کے بنیادی مطالبے کو پورا کرنے کوشش نہیں کی کہ “صرف چارحلقے کھول لیے جائیں”۔ چار مئی 2015ء کولاہور کے انتخابی ٹریبونل نے مسلم لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق کی انتخابات میں کامیابی کو کالعدم قراردیتے ہوئے حلقہ این اے 125میں دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔ سیاسی مبصرین نے خواجہ سعد رفیق کے انتخاب کو کالعدم قراردینے کے فیصلے کو تحریک انصاف کا پہلا چھکا قرار دیا تھا۔ لیکن سعد رفیق اپنا کیس سپریم کورٹ میں لےگئے اوراب سعدرفیق ایم این اے بھی ہیں اور ریلوے کے وزیر بھی۔ 2013ء کے عام انتخابات کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن نے جولائی کے آخر میں اپنے فیصلے کا اعلان کیا اورپاکستان تحریک انصاف کے تینوں الزامات مسترد کر دیئے۔ اپنے فیصلے میں جوڈیشل کمیشن نے کہا ہے کہ انتخابات بعض بے ضابطگیوں کے باوجودقانون کے مطابق ہوئے اور منظم دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس فیصلے نے تحریک انصاف کو سیاسی طور پر بہت کمزورکردیا اور تحریک انصاف معذرت خواہانہ طرز عمل اختیار کرنے پر مجبورہو گئی تھی، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے کیمپ میں بھنگڑے ڈالے جارہے تھے۔
بائیس اگست کوکھیل کا پانسہ پلٹا اورالیکشن ٹریبونل نے این اے 122 سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور پی پی 147 سے مسلم لیگ (ن) کے ہی رکن پنجاب اسمبلی محسن لطیف کے انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان حلقوں میں دوبارہ انتخابات کا حکم دے دیا۔ یہ مسلم لیگ (ن) کی دوسری وکٹ گری تھی۔ اس اہم وکٹ کے گرتے ہی مسلم لیگ (ن) میں بھونچال آگیا۔ ایاز صادق نہ صرف قومی اسمبلی کے رکن تھے بلکہ قومی اسمبلی کے اسپیکربھی تھے۔ اس وقت وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ این اے 122 کا فیصلہ قانونی عمل کا حصہ ہے۔ این اے 122 کے فیصلے پر قانون کے مطابق اپنا حق استعمال کریں گے۔ جبکہ ایاز صادق نے فیصلے کے خلاف سیدھے سیدھے سپریم کورٹ جانے کااعلان کیا تاکہ وہ بھی اگلے ڈھائی سال حکم امتناعی کی چھتری تلے آرام سے قومی اسمبلی کے رکن اور اسپیکر رہ سکیں۔
ہر سیاسی جماعت یا حکومت کا کوئی نہ کوئی ترجمان ہوتا ہے اور وہی جماعت یا حکومت کی پالیسی بیان کرتا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کا انداز ذرا مختلف ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں وزرا اور خاص کر وہ وزرا جو پارٹی یا حکومت کے ترجمان ہیں ، وہ وزرا کم اور نواز شریف کے درباری زیادہ ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے دو درباری وزرا پرویز رشید اور رانا ثناءاللہ کا تو کام ہی یہ ہےکہ سچ بولیں یا جھوٹ ہر صورت میں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کا جھنڈا اونچا رکھنا ہے۔ ان دونوں وزرا نےصبح سے شام تک پاکستان تحریک انصاف اور اُس کے چیئرمین عمران خان کے خلاف جھوٹے سچے بیان دینے کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے۔ این اے 122کے فیصلے میں ایاز صادق کی وکٹ گرنے کے بعد دونوں درباری وزرا کے پاس جب تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف کہنے کو کچھ نہیں تھا توحکومت اور نواز شریف کو شرمندگی سے بچانے کےلیے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہاکہ ہم این اے 122 کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، لیکن اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ فیصلہ کرنے والے نے مسلم لیگ (ن) سے تعصب برتا ہے۔ وزیر اطلاعات کا بیان سیدھا سیدھا جج پر الزام تھا کہ جج متعصب ہے جب کہ اس سے پہلے اسی جج جسٹس (ر) کاظم علی ملک نے مسلم لیگ (ن) کے حق میں فیصلے دیئے تھے مگر تب اُنہیں متعصب نہیں کہا گیا۔
دوسرے درباری وزیر، پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے جج جسٹس (ر) کاظم علی ملک پر الزام لگاتے ہوئےوفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید سے آگے چھلانگ لگائی اورایک پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا کہ الیکشن ٹریبونل کے جج کاظم علی ملک نے مئی 2013ء کے عام انتخابات میں اپنے بیٹے کےلیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ مانگا تھا لیکن انکار کرنے پر اُنہوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کے خلاف انتخابی عذرداری کا فیصلہ دیا ہے۔ اُنہوں نے اس فیصلے کو تعصب پر مبنی قرار دیا۔ جسٹس (ر) کاظم علی ملک نے اُسی روز ایک ٹی وی پروگرام پر آ کر ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر صوبائی وزیر قانون اُن کے بیٹے کی پارٹی ٹکٹ لینے سے متعلق کوئی درخواست کی کاپی دِکھا دیں تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ (جج کاظم ملک کا یہ اقدام یقیناً پیشہ ورانہ اخلاقیات کی خلاف ورزی ہے) اُنہوں نے کہا کہ وفاقی وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے بھی قومی اسمبلی کے اس فیصلے کے بعد سنگین نتائج کی دھمکیاں دی ہیں تاہم وفاقی وزیر اطلاعات نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ جسٹس (ر) کاظم علی ملک کو دونوں وزرا کے بیانات کو برداشت کرنا چاہیئے تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے سنائے جانے کے بعد وہ پبلک پراپرٹی بن جاتے ہیں اور ہر ایک کو اس پر رائے دینے کا حق ہے۔اُنہوں نے کہا کہ کسی جج کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ٹی وی چینل پر آکر اپنے دیئے ہوئےفیصلوں کا دفاع کرے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 25 اگست کو قومی اسمبلی کے حلقوں این اے 125 اور این اے 122 کے بعد این اے 154 لودھراں سے مسلم لیگ (ن) کی تیسری وکٹ گرا کر ہیٹ ٹرک مکمل کر لی۔ الیکشن ٹریبونل نے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 154 لودھراں میں بھی تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ سنا کر مسلم لیگ (ن) کے صدیق خان بلوچ کی کامیابی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ انتخابات کا حکم دے دیا ہے۔ الیکشن ٹریبونل نے صدیق بلوچ کو جعلی ڈگری پرتا حیات نااہل بھی قرار دے دیا ہے۔ الیکشن ٹربیونلز کے تین فیصلے جو مسلم لیگ (ن) کے خلاف آئے ہیں اُس کے بعد سے مسلم لیگ (ن) کے وزراء اور رہنماؤں نے موجودہ سیاسی صورتحال سے نمٹنے کےلیے مختلف آراءکااظہار کیا ہےجس سے پارٹی رہنماؤں کی رائے میں اختلاف واضح ہوا ہے۔وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے ایک اجلاس میں عمران خان کی سیاست پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا اور نواز شریف نے پارٹی رہنماؤں کو ہدایت کی کہ وہ اختلاف رائے ختم کریں۔
قومی اسمبلی کی نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کی ہیٹ ٹرک سے مسلم لیگ (ن) پر زبردست سیاسی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اُس کی سمت ہی تبدیل ہوگئی ہے۔ نواز شریف جو اب سےصرف چند روز پہلے سپریم کورٹ جانے کو اپنا حق قرار دے رہے تھے ایک بہت بڑا یو ٹرن لیتے ہوئے فرمایا کہ “سردار ایاز صادق پر جو داغ الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے بعد لگا ہے اس کو دھونے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں پٹیشن دائر کی جائے گی اور وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے خاتمے کی استدعا کریں گے لیکن ضمنی الیکشن کے حوالہ سے حکم امتناعی کی درخواست نہیں کی جائے گی”۔ وزیراعظم نواز شریف نےاعلان کیا کہ مسلم لیگ (ن) ضمنی الیکشن میں حصہ لے گی، عوام کے ووٹوں سے پارلیمنٹ میں آئے ہیں، جب بھی موقع ملا تو عوام سے ہی رجوع کیا۔ مسلم لیگ (ن) ہمیشہ عوام کی عدالت میں جانے کو ترجیح دیتی ہے۔ساتھ ہی نواز شریف کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کی نشست 122پر 11اکتوبر کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ایاز صادق ہی ہوں گے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف ضمنی الیکشن کے دنگل میں کیوں اترنا چاہ رہے ہیں تو اُس کی سیدھی سیدھی وجہ یہ ہے کہ الیکشن ٹریبونل نے صدیق بلوچ کو جعلی ڈگری پرتا حیات نااہل قرار دے دیا ہے، اس لیے نواز شریف کو ہر صورت انتخابی دنگل میں اترنا تھا۔
عمران خان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا ضمنی انتخاب کرنے کا اقدام خوش آئند ہے، میں ان کے چیلنج کو قبول کرتا ہوں اور وزیراعظم نواز شریف کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اگر این اے 122میں میرے مقابلے میں آ کر الیکشن لڑیں تو میں بھی تیار ہوں۔ ایسا تو شاید ممکن نہیں ہوگا کیونکہ نواز شریف کواس کی ضرورت نہیں ہے جبکہ عمران خان اپنے چار حلقوں کےاصل مطالبےمیں ہیٹ ٹرک کی بدولت 75 فیصد کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ این اے 122 اور این اے 154 کے ضمنی انتخاب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اورپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی مقبولیت کا امتحان ہوں گے۔
تحریر: سید انور محمود