لاہور (ویب ڈیسک) سعودی عرب میں واقع تیل کی اہم تنصیبات پر رواں ہفتے پراسرار ڈرون حملوں کے نتیجے میں پہلے سے عدم استحکام کا شکار مشرق وسطیٰ مزید کشیدگی کا شکارہو گیا ہے، حالیہ تنائو نے جہاں ایک طرف پوری دنیا میں تیل کی سپلائی کو متاثر کیا ہے وہیں عالمی منڈی میں تیل کی نامور اقلیتی سیاستدان ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق یمن میں سرگرم حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے،تاہم ڈرون حملے کے فوراََ بعدامریکہ نے ایران کو ملوث قرار دیاجبکہ سعودی عرب نے الزام تراشی سے گریز کیا لیکن پھر بھی ڈھکے چھپے لفظوں میں ایران کوشریک جرم کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ حملوں میں استعمال ہونے والے ہتھیار ایرانی ساختہ ہیں، کچھ ماہ قبل متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ پر بھی سعودی عرب، یواے ای اور ناروے کے آئل ٹینکرز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ خطے میں سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی عرصہ دراز سے جاری ہے ،اس ساری صورتحال میں سپر طاقتوںکا کردار خاصی اہمیت کا حامل ہے، امریکہ کی جانب سے ایران کو بار بار دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ روس مسلسل ایران کی حمایت کا اعادہ کررہا ہے ۔چین ،برطانیہ ، جرمنی اور دیگر ممالک اس کشیدہ صورتحال کا پر امن حل چاہتے ہیں،ایران کی جانب سے تردید کر دی گئی ہے کہ وہ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملوں میں ملوث نہیں ہے لیکن وہ حوثی باغیوں کی حمایت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے بعد مڈل ایسٹ کے حالیہ تناؤ نے پاکستان کو ایک نازک صورتحال سے دوچار کردیا ہے ، کشمیر اور فلسطین کے معاملے پر مسلمان ممالک کی خاموشی اور اب ایران سعودی چپقلش سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیم سمجھی جانے والی او آئی سی اپنی افادیت کھو بیٹھی ہے، ماضی میں بھی اسی تنظیم کی موجودگی میںامریکہ نے افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی تھی۔ پاکستان علاقائی و نظریاتی سطح پر ایک نمایاں پوزیشن کا حامل ہے اور سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ قریبی سفارتی تعلقات رکھتا ہے جس کی وجہ سے پر بلاشبہ دونوں متحارب ممالک کی کوشش ہوسکتی ہے کہ پاکستان کو اپنا ہمنوا بنایا جائے۔ سعودی عرب ماضی میں بھی پاکستان سے یمن کے معاملے پر عسکری تعاون مانگ چکا ہے، تاہم موجودہ حالات میں پاکستان کو بہت سوچ سمجھ کر کوئی سفارتی قدم اٹھانا چاہئے۔تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ ماضی میں ہر سپرپاور نے اپنے مفادات کی خاطر علاقائی کشیدگی کو بڑھاوا دیا اور بدلے میں نہ صرف ہتھیارسازی کی صنعت کو فروغ دیا بلکہ اپنے آپ کو نجات دہندہ کے روپ میں بھی پیش کیا،مڈل ایسٹ میں جب بھی جنگ ہوئی وہ تیل کے ذخائر پر قابض ہونے کےلئے ہوئی ،شاہ ایران کے دور میں ایران کا کردار علاقے میں امریکی تھانے دار کا تھا، انقلاب ایران کے بعد عراق کے ساتھ جنگ چھڑ گئی تو عراقی صدر صدام حسین امریکہ کا پسندیدہ حکمران بن گیا، بعد ازاں اس کو کویت میں واقع تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے پر اکسایا گیا ، کویت پر چڑھائی کے بعداس کو امریکہ کا بدترین دشمن بناکرپیش کیا گیااورپھر عراق پر امریکی قبضے کے بعداس کی حکومت کا آخرکار خاتمہ کردیا گیا۔ یہ وہ تلخ تاریخی حقائق ہے جن کی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ