تحریر: سید انور محمود
خیبرپختونخوا میں عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کوابھی صرف چار ماہ ہوئے تھے کہ دوسرئے بڑئے دہشت گردی کے واقعات کے علاوہ اس عرصے میں اُن کی اپنی جماعت کے تین منتخب نمائندے بھی دہشت گردی کا شکار ہوچکے تھے۔ مگر عمران خان مذاکرات اور طالبان کے دفتر کا راگ الاپ رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کےلیے اس کا ایک دفتر ہونا ضروری ہے آپریشن ضرب عضب سے پہلے تک عمران خان مسلسل لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کرتے رہے کہ نو سال میں کچھ نہیں ہوااور پچاس ہزار افراد مارئے گے اس لیے مذاکرات ہی وہ راستہ ہے جس سے امن آسکتا ہے۔ مئی 2013 کےانتخابات کے درمیان طالبان دہشتگرد باقاعدہ اعلان کرکے پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور ائے این پی کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنارہے تھے، جس کی وجہ سے ان تینوں جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم بند کردی تھی لیکن طالبان دہشت گردوں کی حامی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف ، پاکستان مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور جمیت علمائے اسلام کے دونوں گروپ بغیر کسی خوف کے اپنی انتخابی مہم چلاتے رہے۔
نواز شریف حکومت قائم ہونے کے بعد مولانا عبدالعزیز، پروفیسرابراہیم خان اور مولانا سمیع الحق پاکستانی طالبان کی طرف سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کردہ کمیٹی کے ارکان مقرر ہوئے۔ مولانا عبدالعزیز جو سابق خطیب لال مسجد، اسلام آباد ہیں انہوں نے پشاور میں طالبان دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے 132 معصوم بچوں کی ہلاکت کو دہشتگردوں کا صیح فیصلہ قرار دیا تھا، مولانا عبدالعزیز دہشتگرد تنظیم داعش کے بھی عاشق ہیں۔ پروفیسرابراہیم خان، امیرجماعت اسلامی خیبرپختونخوا ہیں، طالبان کے زبردست حامی ہیں اور کیوں نہ ہو ان کی جماعت ، جماعت اسلامی پاکستان میں دہشت گردوں کی سب سے بڑی حامی اورسہولت کار ہے۔مولانا سمیع الحق اکوڑہ خٹک میں واقع دارالعلوم حقانیہ کے بانی اور سربراہ ہیں، مولانا سمیع الحق طالبان دہشت گردوں کو اپنے بچے کہتے ہیں اور خود کو ان کا روحانی باپ، جلال الدین حقانی سے لے کر ملا اختر منصور تک سب نے اپنے روحانی باپ کے مدرسے دارالعلوم حقانیہ میں ہی پڑھا ہے، مولانا سمیع الحق کےبچے طالبان دہشتگردبھی نواز شریف حکومت کے ساتھ مذاکرات مذاکرات کھیلتے ہوئے اپنے باپ کو نہیں بھولے تھے۔ طالبان دہشت گردوں نے حکومت سے مذاکرات کی بات کی تو انہوں نے مولانا عبدالعزیز، پروفیسرابراہیم خان اور مولانا سمیع الحق کو اپنا نمائندہ بنایا لیکن اس سے پہلے انہوں نے عمران خان کو اپنا نمائندہ بنایا تھا، لیکن عمران خان جو طالبان خان کے نام سے بھی پہچانے جاتے ہیں راضی نہ ہوئے۔
مذاکرات کے درمیان بھی طالبان دہشت گردوں کی دہشت گردی جاری رہی۔آٹھ جون 2014ء اتوارکی درمیانی شب کو کراچی کےجناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہ حکومت کی ناقص سیکوریٹی انتظام اورایک اندیشے کے مطابق انتظامیہ میں سے چند بکے ہوئے ارکان کی وجہ سے طالبان دہشت گردوں کی جانب سے ایئرپورٹ پر حملہ ہوا۔ اتوار 15 جون کو افواج پاکستان نے طالبان دہشت گردوں کے خلاف ایک بھرپورآپریشن ضرب عضب کے نام سے شروع کیا۔ فوج کے ازخود آپریشن شروع کرنے کی وجہ سے عمران خان نے بھی مذاکرات کا راگ الاپنا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود طالبان سے عمران خان کی ہمدردیاں ختم نہیں ہویں، لہذا تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا حکومت نے اپنے حالیہ صوبائی بجٹ میں 30 کروڑ روپے کی خطیررقم دارالعلوم حقانیہ کےلیے مختص کی ہے۔عمران خان نے بڑئے کمزور انداز میں اس فیصلے کا دفاع ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ کہتے ہوئے کیا ہے کہ ’’اس سے انتہا پسندی پر قابو پانے میں مدد ملے گی‘‘۔عمران خان کا کہنا تھا کہ جب طالبان نے صوبے میں انسداد پولیو مہم کی مخالفت کی اور پولیو ورکرز کو قتل کیا تو اس وقت مولانا سمیع الحق نے انسداد پولیو مہم کی حمایت کی تھی۔
سینئر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا کے بجٹ میں دارالعلوم حقانیہ کو 30کروڑ روپے کی امداد سیاسی رشوت ہے، خیبرپختونخوا حکومت مولانا فضل الرحمن کی ضد میں مولانا سمیع الحق کی حوصلہ افزائی کررہی ہے، ایک طرف طالبان کے خلاف آپریشن ہورہا ہے تو دوسری طرف اس مدرسے کومالی امداد دی جارہی ہے جو فخریہ طالبان سے اپنا تعلق جوڑتا ہے۔ وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید کے مطابق ایک جانب تو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو حکومت کے خلاف احتجاج میں اپنے ساتھ کنٹینر پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور دوسری جانب وہ ان کی والدہ کے قاتلوں سے تعلق رکھنے والوں کو انعام دے رہے ہیں۔ پرویز رشید نے عمران خان سے سوال کیا کہ ’’جس مدرسے سے تعلق رکھنے والوں نے سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے قتل میں کردار ادا کیا انھیں تیس کروڑ روپے کا یہ انعام کیوں دیا گیا ہے؟‘‘۔
عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی معروف سیاستدان بشریٰ گوہر نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں پشاور حکومت کے اس اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’طالبان خان (مراد پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان) نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قیمتی انسانی جانوں کے نقصان پر تو ایک لفظ بھی نہیں کہا لیکن طالبان کی مالی مدد کے لیے تیس کروڑ روپے مختص کر دیے گئے‘‘۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار اسد منیر نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’’بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث چار ملزمان کا تعلق جامعہ حقانیہ سے تھا‘‘۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کی نائب صدر شیریں رحمان نے بھی ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں جامعہ حقانیہ کے لیے اس گرانٹ پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔شیریں رحمان نے لکھا، ’’عبداللہ، نادر، فیض اور رشید وہ چار دہشت گرد تھے، جو بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث تھے۔ ان دہشت گردوں کا تعلق جامعہ حقانیہ سے تھا، جن کے لیے صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت نے تین سو ملین روپے مختص کیے ہیں‘‘۔
انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی فرزانہ باری نے بتایا کہ، ’’جامعہ حقانیہ کو دی جانے والی یہ امداد نیشنل ایکشن پلان کی دھجیاں بکھیر دینے کے مترادف ہے۔ ایک سوال کے جواب میں فرزانہ باری نے کہا، ’’جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ویسے تو مذہبی انتہا پسندوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں لیکن وہ اس کو کئی بار چھپانے کی بھی کوشش کر چکی ہیں۔ تاہم اس امداد نے ان کے اس جھوٹ کو بھی فاش کر دیا ہے اور دنیا کو دکھا دیا ہے کہ وہ انتہاپسندوں کے کتنے بڑے حمایتی ہیں۔سوشل میڈیا پرایک تبصرہ کچھ اس طرح سے تھا کہ ’’آپ تو جانتے ہیں کہ فوج بار بار دعوے کرتی ہے کہ طالبان کی کمر توڑ دی گئی ہے اور ان سے اٹھانوے فیصد علاقہ کلیئر کروا لیا گیا ہے۔ یہ پیسے عمران خان نے کے پی کے کی حکومت سے مولانا سمیع الحق کو مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کی امداد کےلیے نہیں بلکہ اس لیے دلوائے ہیں تاکہ وہ طالبان کی ٹوٹی ہوئی کمر کا علاج کروا سکے اور انہیں دوبارہ کھڑے ہونے کے قابل بنا سکے تاکہ طالبان اپنا بم بارود والا ادھورا مشن مکمل کر سکیں‘‘۔
ایک ایسا مدرسہ جسے دہشت گردوں کی فیکڑی کہا جاتا ہو، اس کو پیسے دینے کا جواز کیا ہے؟ حالانکہ دوسری طرف خیبر پختونخوا کے اسکولوں میں پانی نہیں ہے، دیواریں نہیں ہیں، ٹائلٹ نہیں ہیں۔ میٹرک کا ابھی نتیجہ آیا ہے، جس میں 70فیصد طالب علم پاس ہی نہیں ہو سکے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے سالانہ ترقیاتی بجٹ میں کمی کی ہے اور انتہا پسندوں کی مالی مدد کےلیے تیس کروڑ روپے رکھ دیے ہیں، جو اس صوبے کے عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ دہشت گردوں کے روحانی باپ مولانا سمیع الحق کو درالعلوم حقانیہ کیلئے 30کروڑ روپے مختص کرنے سے عمران خان اورپی ٹی آئی کے بارے میں یہ سوال ضرور ذہن میں آتا ہے اگر یہ کل پاکستان پر حکمرانی کرینگے تو ملک کو کس سمت میں لے جاینگے اور روحانی باپ کے دہشت گرد بچے کیا کریں گے۔ طالبان دہشت گردوں کو30کروڑ روپے مختص کرنے کا مطلب ہے کہ مولانا سمیع الحق کے زریعے عمران خان کی طرف سے دہشت گردوں کو راتب مہیا ہوگی، واقعی یہ ایک بڑی تبدیلی ہے جو عمران خان ہی لاسکتے ہیں۔
تحریر: سید انور محمود