اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 22 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے 18 اگست کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا۔ عمران خان سے وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف صدر مملکت ممنون حسین نے لیا۔ حلف برداری کی تقریب ایوان صدر میں منعقد کی گئی
جہاں وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف لینے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے تقریب میں آئے مہمانوں سے بھی ملاقات نہ کر سکے اور وزیراعظم ہاؤس روانہ ہو گئے۔سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بھی کافی تبصرے ہوئے ۔ جس کے بعد عید الاضحیٰ آئی اور عید الاضحیٰ کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کی عید نماز کی ادائیگی کی کوئی تصویر جاری نہ ہونا بھی سوشل میڈیا پر ایک موضوع بحث بن گیا۔ سوشل میڈیا صارفین بالخصوص سیاسی مخالفین نے اس بات کو خاصی ہوا دینے کی کوشش کی کہ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مدینہ کی ریاست بنانے کا عہد کرنے والے وزیراعظم عمران خان نے نماز عید ادا نہیں کی ورنہ ان کی کوئی نہ کوئی تصویر ضرور شئیر کی جاتی ، اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کئی تبصرے اور چہ مگوئیاں بھی ہوئیں تاہم اب عمران خان کا وزارت عظمٰی کا حلف اُٹھانے کے بعد بھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری نہ دینا ایک نیا موضوع بحث بن گیا ہے۔سوشل میڈیا صارفین نے عمران خان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد مزار قائد پر حاضری نہ دینے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ
عمران خان کو وزارت عظمیٰ کا حلف اُٹھائے 9 دن گزر گئے لیکن ان کے پاس اتنی بھی فرصت نہیں کہ وہ بانی پاکستان کے مزار پر حاضری دے آئیں۔ اس حوالے سے سیاسی مخالفین نے بھی نو منتخب وزیراعظم عمران خان پر تنقید کے نشتر چلائے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے کہا کہ اتنے دن گزر گئے وزیراعظم کا بابائے قوم قائد اعظم کے مزار پر حاضری نہ دینا افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ حلف اُٹھانے کے فوری بعد قائد اعظم کے مزار پر حاضری دینا لازمی ہے لیکن لگتا ہے کہ عمران خان کے نئے پاکستان میں مزار قائد پر حاضری دینا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ انہوں نے خاتون اول بشریٰ بی بی سے درخواست کی کہ وہ وزیراعظم عمران خان کو مزار قائد پر حاضری کے لیے بھیجیں۔دوسری جانب چیئرمین سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ رحمان ملک نے وزیراعظم عمران خان سے الیکشن کے روز الیکشن کمیشن کے رزلٹ مینجمنٹ سسٹم (آر ٹی ایس) کی ناکامی پر ٹیکنیکل کمیٹی بنانے کی درخواست کی ہے۔ رحمان ملک کی جانب سے وزیراعظم کو خط لکھا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ داخلہ کمیٹی کو سینیٹ نے الیکشن کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی تھی اور بطور وزیر داخلہ عمران خان کمیٹی سے تعاون کے پابند ہیں۔