اور اس کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے؟۔ لہٰذا موجودہ سیاسی صورت حال کے مطابق ریلوے کے حالیہ حادثے کو اپنے لیے ایک ”سنہری موقع“ سمجھتے ہوئے ممکن ہے اُس کی آڑ میں وہ کسی اور کی کشتی میں سوراخ کرنے کے لیے اس میں چھلانگ لگانے کی تیاری شروع کردے۔ …. جمعرات کو رحیم یار خان کے قریب ہونے والے ریلوے کے سانحے کے بعد وہ صحافیوں سے اس انداز میں گفتگو کررہا تھا جیسے یہ صحافی اُس کے غلام ہوں۔ اپنی متکبرانہ طبعیت کے مطابق کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے وہ وزیراعظم عمران خان کو بھی اپنا ”غلام“ ہی سمجھتا ہوگا، اور اپنے اس ”غلام “ سے اچھا سلوک کرنے کا اللہ سے اجر سے مانگتا ہوگا ، ویسے وہ اور ہمارے محترم وزیراعظم اس اعتبار سے ”پیٹی بندغلام“ ہی ہیں کہ دونوں کے ”آقا“ ایک ہیں، …. جہاں تک ریلوے کے حالیہ سانحے کے ذمہ داران کا تعلق ہے مجھے یقین ہے حسب روایت، حسب سابق اور حسب نیت اس کا ملبہ ریلوے کے چند چھوٹے چھوٹے افسران یاملازمین پر ڈال کر گونگلوﺅں سے مٹی جھاڑ دی جائے گی۔ اور جہاں تک اس سانحے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کا تعلق ہے اس کے ذمہ داران اس ”جرم“ میں خود جان بحق اور زخمی ہونے والوں کو ہی ٹھہرایا جائے گا کہ جب اُنہیں پتہ تھا ریلوے کا وزیر شیخ رشید ہے اور انہیں پتہ تھا کہ ریلوے مسلسل حادثات کا شکار ہورہا ہے تو ریلوے سے سفر کرنے کا رسک اُنہوں نے کیوں لیا؟؟؟!!
لاہور (ویب ڈیسک) ریلوے کا ایک اور سانحہ ہوگیا، جس کے نتیجے میں چوہتر مسافر زندہ جل گئے، ریلوے کا سب سے بڑاحادثہ یا سانحہ تو یہ ہے شیخ رشید کو دوباراِس محکمے کا وزیر بنایا گیا، اس سانحے کے مقابلے میں باقی سارے سانحے بہت معمولی نوعیت کے ہیں، گزشتہ جمعرات کو ہونے والے سانحے میں
نامور کالم نگار توفیق بٹ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اٹھاون کے قریب لاشیں اتنی مسخ ہیں ان کی شناخت صرف ڈی این اے کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے، سُنا ہے سرکار اِس کا اہتمام کررہی ہے، مجھے اِس پر حیرت ہے کہ اِس کا اہتمام سرکار کررہی ہے، کیونکہ سرکار اپنی نااہلی کے جس بدترین مقام پر پہنچی ہوئی ہے ہم تو سرکار سے یہ توقع کررہے تھے کہیں وہ ”مسخ شدہ لاشوں“ کو ہی یہ حکم جاری نہ کردے کہ سرکار کے پاس ڈی این اے وغیرہ کروانے کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے لہٰذا آپ اپنے ”ڈی این اے“ کا اہتمام خود کریں، ….موجودہ حکومت یا حکمرانوں سے ہمیں بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں، ان اُمیدوں کے ٹوٹنے کا آغاز اُسی روز ہوگیا تھا جب خان صاحب نے اپنے ”چپڑاسی“ شیخ رشید احمد کو وزیر ریلوے بنادیا تھا۔ اُس کے بعد سے لے کر اب تک ریلوے مسلسل خساروں اور حادثوں کا شکار ہے، ایسی نحوست اِس محکمے پر چھائی ہوئی ہے جو وزیر ریلوے کے استعفیٰ کے بعد بھی شاید ختم نہ ہو، ویسے اُمید یہی ہے وہ اپنے عہدے سے ہرگز مستعفی نہیں ہوگا، کیونکہ اُس جیسا ڈھیٹ آدمی ہماری سیاست اور حکومت میں شاید ہی اور کوئی ہوگا ، سیاست میں اُس کی سب سے بڑی شناخت یہ ہے وہ جس تھالی میں کھاتا ہے اُس میں صرف سوراخ ہی نہیں اور بھی بہت کچھ کردیتا ہے۔ یہ اُس کی فطرت ہے، یقین کریں ہمارے ملک میں بے شمار لوگ جو سیاست سے شدید نفرت کرتے ہیں
اُس کی واحد وجہ یہ ہے شیخ رشید جیسے لوگ سیاست میں ہیں، میں یہ بات پورے وثوق پورے دعوے سے کہہ سکتا ہوں عمران خان نے اُسے کسی بہت بڑی مجبوری کے تحت ہی وزیر بنایا ہوگا، ورنہ جس شخص کو ایک ٹی وی پروگرام میں وہ اپنا ”چپڑاسی“ بنانے پر تیار نہیں ہورہا تھا اُسے وفاقی وزیر کیسے بناسکتا تھا؟۔ اصل میں شیخ رشید احمد کے ”وارثان“ یا سرپرست اتنے طاقتور ہیں بے چارے وزیراعظم اُن کے آگے ”چُوں چراں“ کرنا تو دُور کی بات ہے وہ اگر وزیراعظم کو یہ حکم دیں ریلوے کے تازہ ترین حادثے یا سانحے کے نتیجے میں انعام کے طورپر شیخ رشید عرف شیدے ٹلی کو ترقی دے کر مزید دوچار اہم محکموں سے نواز دیں تو یہ عمل بھی ہمارے محترم وزیراعظم کرگزریں گے، …. ویسے میں اکثر سوچتا ہوں کپتان کے لیے شکر کا مقام ہے اُنہوں نے شیخ رشید کو اپنا ”چپڑاسی“ نہیں بنایا ورنہ ممکن ہے ریحام خان نے اپنی کتاب میں جو کچھ بکا یا لکھا تھا کپتان کے چپڑاسی کی حیثیت سے شیخ رشید اُس کی تائید کردیتا، یا ہو سکتا ہے ایسی ہی کوئی کتاب خود لکھ دیتا، …. اتنا متکبر اور بدکلام شخص شاید ہی کوئی ہوگا، رشتوں کی اُسے کوئی تمیز ہی نہیں، اللہ نے عورت کے مقام کو اُس سے محفوظ رکھنا تھا اس لیے اسے شادی کی توفیق بھی نہیں بخشی ۔بشمول بے نظیر بھٹو مرحومہ ہماری سیاسی خواتین کے بارے میں جو بدکلامی وہ کرتارہا، بلکہ نجی محفلوں میں اب بھی کرتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے اُسے کسی عورت نے جنم نہیں دیا، ….اپنے سیاسی محسنوں کو
ڈسنا اُس کی خصوصی شناخت ہے، بدلتے ہوئے سیاسی حالات کے مطابق پچھلے کچھ دنوں سے اس کی پُراسرار خاموشی یہ امکان ظاہر کررہی ہے ایک اور سیاسی محسن کو ڈسنے کی اِن دنوں وہ تیاری کررہا ہے، البتہ اپنے ”اصلی محسنوں“ کو ڈسنے کی اُس میں جرا¿ت اِس لیے نہیں جس روز اپنے ”اصلی محسنوں“ کو اپنی خصوصی فطرت کے مطابق کوئی ڈنک اُس نے مارا خود مارا جائے گا…. ممکن ہے عمران خان نے بادل نخواستہ اُس کی اِس واحد ”خوبی“ کی وجہ سے اُسے وزیر بنادیا ہو کہ وہ ”غراتا“ بہت اچھا ہے، کسی سیاسی مخالف پر اُسے چھوڑ دیا جائے اپنی بدکلامی سے اسے چیرپھاڑ کر رکھ دیتا ہے، ایسے دُم ہلانے والے ” بدکلاموں“ کو ہمارے محترم وزیراعظم صرف پسند ہی نہیں کرتے اپنے قریب بھی بہت رکھتے ہیں، …. شیخ رشید کا تعلق ”پنڈی“ سے نہ ہوتا اب تک اُس کی سیاست ختم ہو چکی ہوتی، اُسے صرف ”ہمسایہ“ ہونے کا فائدہ مل رہا ہے، سو اپنی اِن ہی ”خصوصیات“ کی بناءپر قوی امکان ہے ریلوے کے حالیہ حادثے یا سانحے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے وہ ہرگز مستعفی نہیں ہوگا۔ پاکستان دوٹکڑے ہوگیا اُس کے سرپرستوں نے کوئی ذمہ داری آج تک قبول نہیں کی تو وہ کیسے کرسکتا ہے؟…. حادثے کے بعد صحافیوں نے جب اُس سے پوچھا وہ مستعفی ہوں گے ؟ اپنی روایتی ڈھیٹائی کے مطابق وہ آگ بگولہ ہوگیا۔ کہنے لگا ”اِن سب باتوں کا جواب میں اتوار کو دوں گا“ ….ایک آدھ فی صد امکان ہے کسی معجزے کے نتیجے میں وہ مستعفی ہوجائے، کیونکہ سیاسی طورپر وزیراعظم عمران خان کے خلاف جو مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں شیخ رشید کو معلوم ہی ہوگا وہ کون کھڑی کررہا ہے؟