لاہور (ویب ڈیسک) یہ ملک عدم برداشت‘ شک اور توہین کا جہنم بن چکا ہے‘ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلاء نے کیا کیا‘ یہ دل کے غریب مریضوں کا ادارہ ہے‘ دل کے اسپتال کتنے حساس ہوتے ہیں آپ کسی نیک دل ملک میں جا کر دیکھیں‘
نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔لوگ اسپتال کے سامنے سے گزرتے ہوئے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرتے جب کہ ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وکلاء نے پی آئی سی پر حملہ کر دیا‘ اسپتال کے شیشے توڑ دیے‘ آئی سی یو کی بجلی بند کر دی‘ ادویات کے اسٹور کو تباہ کر دیا اور دل کے آلات پاؤں میں روند دیے‘ تین مریض جاں بحق ہو گئے۔پولیس آئی تو اسپتال میدان جنگ بن گیا‘ اسپتال کے احاطے میں آنسو گیس بھی استعمال ہوئی‘ واٹر کینن بھی چلائی گئی‘ لاٹھی چارج بھی ہوا اور پتھراؤ بھی‘ وکیلوں نے ہوائی فائرنگ بھی کی‘ آپ پوری دنیا کو دیکھ لیں‘ آپ اس نوعیت کا واقعہ کسی جگہ نہیں دیکھیں گے‘ جنگوں کے درمیان بھی اسپتال محفوظ رہتے ہیں جب کہ لاہور میں امن کے دور میں انتہائی پڑھے لکھے وکلاء کے ہاتھوں دل کا اسپتال تباہ ہو گیا‘ آپ حملہ آوروں کے پروفائل دیکھیں‘ آپ کو ان میں پاکستان تحریک انصاف کے وکلاء بھی ملیں گے۔ہم کیا لوگ ہیں اور یہ شدت ہمیں کہاں لے جائے گی؟ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا افتخار محمد چوہدری اور عمران خان دونوں اس کے ذمے دار ہیں‘ وکلاء افتخار محمد چوہدری کے پیچھے کورٹ روم سے نکل کر سڑکوں پر آئے تھے اور انھوں نے سپریم کورٹ پر حملہ بھی کیا اور ملک کی تمام چھوٹی بڑی عدالتوں کا بائیکاٹ بھی اور ہم میڈیا کے بے وقوف اس شدت اور بدتمیزی کو پوری آن اور شان کے ساتھ دکھاتے رہے‘
اس دور میں پہلی بار چیف جسٹس آف پاکستان اور پی سی او ججوں کو سر عام گالیاں پڑیں‘ ہم نے ان گالیوں کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کو گھر بھجوا دیا‘ ملک میں جمہوریت بھی آ گئی اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی بحال ہو گئے لیکن ہم نے پورا سسٹم تباہ کر کے رکھ دیا‘ وکلاء اس کے بعد دوبارہ کورٹ روم واپس نہیں جا سکے۔ہم نے پھر اپنی آنکھوں سے وکیلوں کو ججوں کو تھپڑ مارتے اور گریبانوں سے پکڑتے بھی دیکھا اور ماں بہن کی گالیاں دیتے بھی‘ دوسرے ذمے دار عمران خان ہیں‘ ہم انھیں 2014ء میں سمجھاتے رہ گئے آپ دھرنا نہ دیں‘ آپ لشکر کشی کے ذریعے حکومت کو گھر بھجوانے کی غلطی نہ کریں‘ آپ کا دھرنا دو دھاری تلوار ثابت ہو گا‘ آپ کام یاب ہو گئے تو ملک کو پھر کوئی اسٹیبل گورنمنٹ نصیب نہیں ہو گی‘ جتھے نکلیں گے اور ان کے سامنے جو آئے گا یہ اسے روند کر واپس چلے جائیں گے اور آپ اگر ہار گئے تو یہ لوگ مزید مضبوط ہو جائیں گے لیکن عمران خان باز نہ آئے اور ہم نے پھر کھلی آنکھوں سے دیکھا دھرنے میں جو گل کھلائے گئے وہ آج ہر روز کھلتے اور لہلہاتے ہیں‘ مولانا فضل الرحمن آئے اور حکومت کے کسی بازو میں انھیں روکنے کی ہمت نہیں تھی۔یہ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین کو دعائیں دیں جنھوں نے مولانا کو فروری کا لالچ دے کر واپس بھجوا دیا ورنہ مولانا وہ حشر کر دیتے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے‘
میں نے کل ٹیلی ویژن پر فیاض الحسن چوہان کی مرمت بھی دیکھی اور وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا گھیراؤ اور گالی گلوچ ہوتے بھی دیکھی‘ ہجوم نے انھیں خاتون کا کریڈٹ بھی نہیں دیا تھا‘ پولیس افسروں اور اہلکاروں کو بھی میدان چھوڑ کر بھاگتے دیکھا اور انتظامیہ کو غائب ہوتے بھی‘ آپ چند لمحوں کے لیے 2014ء میں جا کر دیکھیے‘ کیا یہ سلوک عمران خان کی خواہش نہیں تھا۔کیا یہ ہجوم کو یہ نہیں کہتے تھے تم وزیروں کا گھیراؤ اور ان کا پھینٹا لگاؤ‘ یہ وزیراعظم کو بھی گھسیٹ کر وزیراعظم ہاؤس سے نکالنا چاہتے تھے اور کیا عمران خان نے آئی جی کو الٹا لٹکانے کی دھمکی نہیں دی تھی اور کیا ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو کو دھرنے کے دوران مارا نہیں گیا تھا‘ یہ آج بھی نارمل نہیں ہیں لہٰذا آج کیا ہو رہا ہے؟ آج وزراء کو پھینٹا لگ رہا ہے اور پولیس دور کھڑی ہو کر تماشا دیکھ رہی ہے‘ وزیراعظم عمران خان خود کہا کرتے تھے مچھلی ہمیشہ سر سے گلنا شروع کرتی ہے۔آج ان کے دور میں مچھلی کا سر اتنا گل چکا ہے کہ اسپتال بھی محفوظ نہیں ہیں‘ ہمیں ماننا ہو گا معاشرے میں عدم برداشت اوپر سے نیچے آئی ہے‘ عمران خان نے گالیوں کی فصل بوئی تھی اور آج میرے جیسے بے اثر لوگوں سمیت پورا ملک یہ فصل کاٹ رہا ہے‘ لوگ گلی گلی میں دست و گریباں ہیں‘ آج فیاض الحسن چوہان کا گریبان اور گردن پکڑی گئی ہے‘ آپ کو کل باقی وزراء کے گریبان بھی ہجوم کے ہاتھوں میں ملیں گے‘ملک نفرت اور عدم برداشت کے لاوے میں ڈوب رہا ہے‘ ہمیں اب اللہ کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا لہٰذا توبہ کریں‘ نجات کی دعا کریں اور ہجوم سے بچنے کی کوشش کریں۔