لاہور (ویب ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کو اس بیان کے بعد شدید تنقید کا سامنا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ انہیں پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی کا علم میڈیا میں خبروں کے آنے کے بعد ہوا۔سوال یہ ہے کہ اگر وزیراعظم کو علم ہی نہیں کہ ان کے ملک کی کرنسی۔۔۔۔
نامور صحافی آصف فاروقی بی بی سی کے لیے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ کی قدر میں کمی ہونے والی ہے، تو پھر اس نوعیت کے اہم معاشی فیصلے کرتا کون ہے؟ یہاں سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈالر کی قیمت کیوں بڑھتی ہے؟ اس کا سادہ سا جواب تو یہی ہے کہ ڈالر کی قیمت بالکل ویسے ہی بڑھتی یا کم ہوتی ہے جیسے آلو کی۔ جی ہاں جب آلو (یا کوئی بھی دوسری مصنوعات) کی پیداوار اس کی کھپت سے بڑھ جائے تو اس کی قیمت کم ہو جاتی ہے اور جب مانگ بڑھے اور پیداوار یا دستیابی کم ہو تو قیمت بڑھ جاتی ہے۔ تو آسان سی بات یہی ہے کہ جب جب ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہو گا اس کی قیمت بڑھے گی اور ہم یہی کہیں گے کہ روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے 1997 میں پاکستان کے مرکزی بینک یعنی سٹیٹ بنک آف پاکستان کو ایک قانون کے ذریعے خو مختار حیثیت دی تھی۔ اس کے لیے جو قواعد تیار کیے گئے ان میں صاف طور پر لکھا ہے کہ غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر پر نظر رکھنا (یا اسے مینیج کرنا) سٹیٹ بنک کی ذمہ داری ہے۔
دیگر خود مختار اداروں کی طرح سٹیٹ بینک بھی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے اور اس طرح کے فیصلوں کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن یہاں یہ بات ذہن میں رکھیے کہ سٹیٹ بینک ڈالر کی قدر کو مینیج تو کر سکتا ہے، روپے کے مقابلے میں اس کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار اس کے پاس بھی نہیں ہے۔ کراچی میں ایک نظام ہے جسے انٹر بینک مارکیٹ کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں تمام نجی و سرکاری بینک منسلک ہوتے ہیں۔ یہاں پر روپے کی قیمت یا یوں کہیے کہ ڈالر کی قیمت طے ہو رہی ہوتی ہے۔اس مارکیٹ کو سبزی منڈی سمجھ لیجیے جہاں ہر صبح مختلف سبزیوں کے ٹریکوں کی نیلامی ہوتی ہے جہاں پر بنیادی طور پر اس سبزی کی قیمت طے ہو جاتی ہے۔ انٹر بنک مارکیٹ میں بھی تقریباً یہی ہو رہا ہوتا ہے اور نجی و سرکاری بنک، کرنسی ایکسچینج کمپنیاں اور درآمد اور برآمد کنندگان آڑھتیوں کا کردار ادا کرتے ہیں۔اگر اچانک ملک کی دو تین بڑی درآمد کنندگان، یعنی امپورٹرز کو بڑے ٹھیکے مل جاتے ہیں اور انہیں اچانک بہت سے ڈالرز کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو وہ اسی انٹر بینک مارکیٹ سے ڈالر خریدنے کا آرڈر بک کروائے گا۔
مثلاً بین الاقوامی منڈی سے تیل خریدنے کے لیے ایک کمپنی نے ایک بڑا آرڈر بک کروایا اور انٹر بینک مارکیٹ سے ایک ہفتے بعد دو کروڑ ڈالر خریدنے کا آرڈر بک کروا دیا۔ اس دوران ایک اور کمپنی نے کچھ اور مال درآمد کرنے کے لیے مزد دو کروڑ ڈالر خرید لیے تو پاکستانی مارکیٹ میں موجود ڈالرز کم ہو جائیں گے اور اس کی قیمت اچانک دباؤ کا شکار ہو کر بڑھ جائے گی۔یعنی روپے کی قدر میں کمی واقع ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر پاکستان میں (سرکاری خزانے کے علاوہ) کہیں سے بہت سے ڈالرز آ جائیں، مثلاً بیرون ملک پاکستانی بہت سارے ڈالر بھجوا دیں یا بہت سے برآمدی ٹھیکے مل جائیں اور اس کے بدلے بڑی رقم ادائیگیوں کی صورت میں کسی نجی یا سرکاری کمپنی کو پاکستان میں مل جائیں تو ڈالر کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے اس پر دباؤ کم ہو گا، اس کی مانگ کم ہو گی اور اس کی قیمت کم ہو جائے گی اور روپے کی قدر خود بخود بڑھ جائے گی۔کراچی میں سٹیٹ بنک کے مرکزی دفتر میں ایک کمپیوٹر پر ڈالر اور روپے کی قیمت اور اس کی خریدو فروخت کا سارا ریکارڈ براہ راست چل رہا ہوتا ہے۔
بالکل جیسے سٹاک مارکیٹ میں ہوتا ہے۔ سٹیٹ بنک کو لمحے لمحے کی خبر ہوتی ہے کہ کون ڈالر خرید رہا ہے، کون بیچ رہا ہے اور اگر کوئی بڑی مقدار میں ڈالر خریدتا یا بیچتا ہے تو سٹیٹ بنک کو اس سے سوال پوچھنے کا حق بھی ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی مشکوک سرگرمی نظر آئے مثلاً کوئی خریدار بلا جواز بہت بڑی مقدار میں ڈالر خریدے تو سٹیٹ بنک مداخلت کر کے اسے ایسا کرنے سے روک سکتا ہے۔حکومت اپنی معاشی پالیسی پر عمل کرنے کے لیے روپے کی قدر پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ مثلاً نواز شریف کے وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کی یہ سخت ہدایت تھی کہ روپے کی قیمت کو ایک سو روپے فی ڈالر تک نہیں پہنچنا چاہیے۔ یہ ان کی معاشی پالیسی کا اہم نکتہ تھا اور انہوں نے روپے کی قیمت مستحکم رکھنے کے لیے سٹیٹ بینک کا سہارا لیا۔ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ جیسے ہی انہیں خبر ہوتی کہ ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی قیمت بڑھنے کا خدشہ ہے، وہ سٹیٹ بنک کو ہدایت کرتے کہ کچھ لاکھ ڈالر اوپن مارکیٹ میں ڈال دیں۔ یوں جو دباؤ ڈالر پر آ رہا ہوتا وہ کم ہو جاتا اور اسے مہنگا ہونے سے روک دیتا۔
یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ ہدایت زبانی دی جاتی کیوں کہ قواعد کی رو سے حکومت اس طرح کی کوئی ہدایت دینے کا حق نہیں رکھتی اور نہ ہی سٹیٹ بینک کو اس طرح کی ہدایت ماننے کی اجازت ہے۔ لیکن ایسا ہوتا ہے۔اگر کوئی وزیراعظم کہے کہ اسے یہ سب پہلے پتہ ہوتا ہے تو گمان یہی ہے کہ وہ سچ بول رہے ہیں اور اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اسے اس بارے میں پیشگی اطلاع نہیں تھی تو یہ بھی عین ممکن ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وزیراعظم معاشی پالیسی میں کتنی ذاتی دلچسپی لیتے ہیں اور اپنی ٹیم پر کتنا اعتماد کرتے ہیں۔ نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں ان معاملات کا زیادہ گہرائی سے علم نہیں ہوتا تھا اور اس کی بڑی وجہ اپنے سمدھی اور وزیرخزانہ اسحٰق ڈار پر ان کا اعتماد تھا۔ بینظیر بھٹو اس طرح کے معاملات میں خاصی دلچسپی لیتی تھیں اور معاشی پالیسی کے چھوٹے چھوٹے نکتوں پر بھی اپنی معاشی ٹیم سے بحث کرتی تھیں۔ وزیراعظم عمران خان کے بارے میں گمان یہی ہے کہ وہ وژن کی حد تک تو معاشی پالیسی میں اپنی رائے دے رہے ہیں لیکن بہت زیادہ تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر انہیں جمعے کو روپے کی قدر میں ہونے والے اتار چڑھاؤ کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا، تو یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔