انتخابات کی تاریخ طے پا گئی ہے لیکن شکوک و شبہات کی کیفیات میں مبتلا لوگوں کا اب بھی یہی خیال ہے کہ اگر انتخاب ایک دو ماہ (دو چار سال کیوں نہیں؟) کے لئے لیٹ بھی ہو جائیں تو کیا قیامت آ جائے گی، قیامت کا وقت تو معین ہے اور اپنے وقت سے ایک لمحہ آگے پیچھے نہ ہوگی۔ دنیا میں بڑے بڑے سانحات ہوتے رہتے ہیں اور بعض لوگوں کے لئے کوئی قیامت نہیں آتی لیکن کچھ لوگوں پر واقعی قیامت گزر جاتی ہے۔ ہسپانیہ کی سرزمین پر اسلام کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا تھا تو کیا قیامت آ گئی تھی؟ لیکن مسجدِ قرطبہ اگر صدیوں تک اذان کی آواز کو ترستی رہی تو حساس لوگوں کے لئے یہ صدیاں کیا قیامت سے کم تھیں۔ علامہ اقبالؒ کو جب مسجدِ قرطبہ میں اذان دینے اور خدائے واحد کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کی توفیق ارزانی ہوئی تو کیا زمانہ قیامت کی چال نہیں چل گیا تھا، برصغیر میں جب اکبر کا دین الٰہی رواج پا رہا تھا اور خلقِ خدا ظِلِّ الٰہی کو سجدے کر رہی تھی اور لاکھوں لوگ سجدے کرکے بھی کسی قیامت سے نہیں گزرے تھے، ان لاکھوں لوگوں کو آج کوئی نہیں جانتا جنہوں نے بلا حیل و حجت اکبر اور جہانگیر کے دربار میں تعظیمی سجدے کئے لیکن تاریخ میں ایک شخص کا نام جگ مگ کر رہا ہے جس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا اور کرتا ہی چلا گیا، یہ جہانگیر کے لئے تو قیامت کا لمحہ ہی تھا لیکن حضرت مجدد الف ثانیؒ کے لئے یہ انکار معمول کی بات تھی کیونکہ وہ حق الیقین اور عین الیقین کے اس مقام بلند پر فائز تھے جب اللہ کے بندے کے لئے غیر اللہ کی حیثیت پرکاہ کے برابر بھی نہیں ہوتی، قیامت تو اس وقت بھی نہیں آئی تھی جب ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں پاکستان کی جری افواج کے ٹائیگر نیازی جگجیت سنگھ اروڑا کو اپنا پستول پیش کر رہے تھے، اس لئے اگر کسی کے دل کو یہ کہہ کر تسلی ہوتی ہے کہ اگر انتخابات دو ماہ کے لئے ملتوی ہو گئے تو کیا قیامت آ جائے گی تو بے شک وہ اپنا دل ایسی تسلیوں سے بہلاتا رہے لیکن ایسے میں یہ مضحکہ خیز اعلان تو نہ کرے کہ میں حلقہ نمبر 60 اور 61 سے اور عمران خان حلقہ 62 سے الیکشن لڑے گا، بھائی جب الیکشن ملتوی ہونے سے کوئی قیامت نہیں آنے والی تو پھر امیدواری کی جلدی کیا ہے۔ جب انتخابات کا ’’باقاعدہ‘‘ اعلان ہو جائے گا، اس وقت آپ امیدوار بن جائیں، پہلے سے اعلان کی کیا ضرورت ہے؟ فرزند راولپنڈی نے اپنے آپ کو عمران خان کا دوست کہا ہے لیکن ایک وقت وہ تھا جب عمران خان کہا کرتے تھے کہ وہ شیخ رشید کو اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھیں، پھر انہوں نے کہا کہ اللہ مجھے ایسا ’’کامیاب سیاست دان نہ بنائے جیسے شیخ رشید کامیاب سیاست دان ہے‘‘ لیکن اب خان صاحب کی اگرچہ شیخ صاحب کے بارے میں رائے بدل چکی ہے لیکن عملاً وہ اب بھی شیخ رشید کو اپنا چپڑاسی ہی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے مقابلے میں شیخ رشید کو تحریک انصاف کا امیدوار بنایا لیکن ان کے ذہن میں شیخ صاحب کا مقام و مرتبہ کتنا بلند ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ الیکشن والے دن ووٹ ڈالنے ہی نہیں گئے۔ انہوں نے اگر شیخ صاحب کو اپنا امیدوار بنایا تھا تو کم از کم اتنی عزت تو دی ہوتی کہ ووٹ ڈالنے ہی آ جاتے، لیکن انہوں نے سوچا ہوگا کہ ان کے ووٹ سے وہ کون سے وزیراعظم بن جائیں گے، اس لئے ’’چوروں اور ڈاکوؤں کی اسمبلی‘‘ میں جانے کا کیا فائدہ؟۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بہت سے ’’چور اور ڈاکو‘‘ جو اس اسمبلی میں بیٹھتے رہے، اب باقاعدہ تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں تو کیا ان کا سٹیٹس بدل گیا ہے، کیسی دلچسپ صورت حال ہوگی اگر یہ سارے چور اور ڈاکو تحریک انصاف کی مہر کے ساتھ اسمبلی میں پہنچ جائیں۔ عمران خان اور شیخ رشید ایک بار اکٹھے بھارت کے دورے پر گئے جہاں عمران خان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات بھی کی، لیکن اس ملاقات میں شیخ رشید موجود نہیں تھے، غالباً عمران خان نے سوچا ہوگا کہ جو شخص میرا چپڑاسی بننے کے لائق نہیں وہ ایک ملک کے وزیراعظم سے ملاقات کا استحقاق کیسے رکھ سکتا ہے، چنانچہ وہ ملاقات کے لئے گئے تو شیخ رشید کو باہر بٹھا گئے، اب اس ملاقات میں کیا طے ہوا اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اگر ایسی ملاقات نوازشریف نے کی ہوتی اور اپنے کسی شیخ رشید کو باہر بٹھا دیا ہوتا تو تصور فرمایئے کیسے کیسے ’’انکشافات‘‘ ہو رہے ہوتے۔
شیخ رشید احمد کا یہ بھی کہنا ہے کہ راولپنڈی کا انتخاب راولپنڈی کے لوگوں پر چھوڑ دینا چاہئے اور باہر کے لوگوں کو راولپنڈی آ کر الیکشن نہیں لڑنا چاہئے، البتہ انہوں نے اس معاملے میں اپنے دوست عمران خان کو استثنا دے دیا ہے یعنی وہ راولپنڈی سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود وہاں سے الیکشن لڑ سکتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ تو تبھی ہوگا جب الیکشن ہوں گے، بعض مایوس سیاست دان اب بھی یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی نہ کوئی ایسا فنکار نگران وزیراعظم بن جائے گا جو یہ درخواست لے کر سپریم کورٹ سے رجوع کرے گا کہ فلاں فلاں وجوہ کی بنا پر انتخابات کا التوا قوم کے لئے مفید ہوگا لیکن ایسے مایوس سیاست دانوں کو شاید یوم اقبالؒ پر لاہور میں چیف جسٹس کا وہ خطاب یاد نہیں جس میں انہوں نے بہت سی باتیں واضح کر دی تھیں۔ بعض ستارہ شناسوں کا اب بھی خیال ہے کہ انتخابات نہیں ہو رہے، ہمارے ایک دوست ستارہ شناس نے 2013ء کے انتخابات سے پہلے بڑے وثوق سے کہا تھا کہ وہ انتخاب ہوتے نہیں دیکھ رہے، لیکن جب انتخابات ہو گئے اور ’’دھاندلی‘‘ بھی ہو گئی تو ہم نے اس دوست سے پوچھا کہ اب آپ کا حساب کیا کہتا ہے تو انہوں نے کہا ان کے حساب کتاب میں تو کہیں انتخاب کا وجود ہی نہیں تھا، نہ جانے یہ کیسے ہو گئے؟