لاہور (ویب ڈیسک )پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات 2018ء کے بعد حکومت کے قیام کی صورت میں پہلے 100 روز کے لیے 6 کلیدی نکات پر مشتمل اپنے لائحہ عمل کا اعلان کردیا ہے جس میں طرز حکومت کی تبدیلی اولین ترجیح ہوگی، اس کے علاوہ معیشت کی بحالی، زرعی ترقی و پانی کا تحفظ، سماجی خدمات میں انقلاب اور پاکستان کی قومی سلامتی کی ضمانت وغیرہ شامل ہیں۔انتظامی بنیادوں پر جنوبی پنجاب صوبہ قائم کرنا، فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنا،آزاد نیب اور غیرسیاسی پولیس کا قیام، جوڈیشل ریفارمز پروگرام اور بیوروکریسی میں اصلاحات کرنا، غیر سیاسی بھرتیاں یقینی بنانا، سی پیک کو مزید ترقی دینا، بھاشا ڈیم کی تعمیر میں تیزی لانا اور چوری شدہ دولت کو واپس لانے سمیت 5 برس میں ایک کروڑ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا، ایک ارب درخت لگانا، نجی شعبے کی شراکت سے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر اور غربت کا خاتمہ کرنا بھی اہم اہداف میں شامل ہیں۔
اتوار کو اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں 100 روزہ ایجنڈا پیش کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے مختلف رہنماؤں نے پالیسی کے اہم نکات پیش کیے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن میں مصروف تھی، پہلی مرتبہ ہماری جماعت نے الیکشن کے لیے ایسی تیاری کی ہے جو پہلے نہیں کی تھی۔موجودہ حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے قریب ہے اور جلد 2018ء کے انتخابات متوقع ہیں جس میں زیادہ سے زیادہ عوامی ہمدردی سمیٹنے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں سرگرم ہو چکی ہیں‘ تحریک انصاف کا اپنا 100روزہ ایجنڈا پیش کرنا بھی اسی انتخابی مہم کا ایک حصہ ہے۔کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور سے اس کے نظریات‘ ملکی نظام چلانے کے طریقہ کار اور عوامی مسائل حل کرنے کے لیے اس کی کوششوں کی عکاسی ہوتی ہے جس کی بنیاد پر عوام اسے ووٹ دیتے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی وفاق میں متعدد بار برسراقتدار آ چکی ہیں اس لیے عوام ان کے منشور‘ نظریات اور کارکردگی سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن تحریک انصاف ابھی صرف خیبرپختونخوا تک محدود رہی ہے اس لیے اس کے لیے لازم تھا کہ قومی سطح پر عوام کو اپنے منشور سے بھرپور طور پر آگاہ کرتی۔تحریک انصاف نے جو منشور پیش کیا اس کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ہر سیاسی جماعت ملکی ترقی‘ خوشحالی اور عوامی مسائل کے حل کا تقریباً ایسا ہی خوش نما ایجنڈا پیش کرتی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا کسی سیاسی جماعت کے پاس ملکی مسائل حل کرنے کی صلاحیت بھی ہے یا نہیں‘ اور اس نے صرف انتخابات جیتنے کے لیے خوش نما ایجنڈا پیش کر کے عوام کو سبز باغ دکھانے کی کوشش کی ہے۔بڑے بڑے سنہرے خواب دکھانا تو آسان امر ہے لیکن انھیں شرمندہ تعبیر کرنا ہی اصل کام ہے۔ جو سیاسی جماعتیں برسراقتدار رہی ہیں، انھوں نے بھی ایسے ہی سنہرے خواب عوام کو دکھائے تھے لیکن برسراقتدار آنے کے بعد داخلی اور خارجی سطح پر مسائل اور چیلنجز اپنی سنگینی کے ساتھ سامنے آئے تو ان پر اصل حقیقت کھلی کہ دعوے کرنا تو آسان کام لیکن مسائل حل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عوام کے آج تک بنیادی مسائل ہی حل نہیں ہو پائے۔ پینے کے صاف پانی‘ سیوریج کے بہتر نظام‘ صفائی‘ صحت‘ تعلیم اور روز گار سمیت ہزاروں مسائل اپنی سنگینی کے ساتھ جوں کے توں موجود ہیں‘ سابق حکومتوں نے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی اس مقصد کے لیے بڑے پیمانے پر بجٹ بھی مختص کیے گئے لیکن بوجوہ یہ مسائل آج بھی حل طلب دکھائی دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سابقہ تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی نے عمران خان کے 100دن کے پروگرام کو خیالی خواہشات قرار دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے کہا کہ یہ 100دن کا پلان بھی گزشتہ انتخابات کے 90دن کے پلان جیسا لگتا ہے۔ پانچ سال قبل بھی عمران خان نے 90دن میں سب تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے اس پلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ محض اعلانات سے عوام کو مزید دھوکا نہیں دیا جا سکتا‘ عمران خان نے گزشتہ انتخابات میں صوبہ خیبرپختونخوا میں 90دن کا پلان دیا تھا وہ بتائیں کہ انھوں نے اس سلسلے میں کیا کیا اور صوبے کے اندر کون سا مسئلہ حل کیا گیا۔ملک کے مسائل جس قدر سنگین ہو چکے ہیں، اسے چند دنوں میں حل نہیں کیا جا سکتا، یہی وجہ ہے کہ برسراقتدار آنے والی پارٹی جب اپنے وعدے پورے نہیں کر پاتی تو عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور بدلتے ہوئے ماحول کو دیکھ کر سیاستدان کسی نئی پارٹی کے جھنڈے تلے عوام کو سبز باغ دکھانے کے لیے ایک بار پھر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔