لاہور ; عمران خان صاحب بہت غصے میں ہیں۔ صحافیوں کو بھرے مجمعے میں للکار کر پوچھ رہے ہیں کہ وہ اپنے ضمیر کو بیچ کر نواز شریف کو ہیرو کیوں بنارہے ہیں۔ آخری خبریں آنے تک اگرچہ میں نے نواز شریف کو ہیرو بنانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ شاید
معروف کالم نگار نصرت جاویداپنے کالم میں لکھتےہیں ۔۔۔۔اپنے ضمیر کے مناسب دام وصول نہ کرپایا۔ایک اور بات کابھی کھلے دل سے اعتراف کرنا ہے کہ جب سے عمران خان صاحب نے خاص کر دھرنا 2014کے دنوں سے صحافیوں کو لفافے اور ضمیر فروش پکارنا شروع کیا ہے، حکمران اشرافیہ نے رپورٹروں کے اٹھائے سوالات کا جواب دینا چھوڑ دیا ہے۔ چند خوش نصیب ساتھیوں کو البتہ Whatsappکی وساطت سے بنی بنائی ’’خبر‘‘ وصول ہوجاتی ہے۔ وطنِ عزیز سے محبت کو ثابت کرنے کے لئے اس خبر کو ذرائع کے حوالے سے چلادیا جاتا ہے۔ ہینگ یا پھٹکڑی کے استعمال کے بغیر رپورٹر کی اپنے دفتر میں حاضری لگ جاتی ہے اور وہ غداری کی تہمت سے بھی بچ جاتا ہے۔اپنا ضمیر بقول عمران خان صاحب فروخت کردینے کے بعد ہم دو ٹکے کے صحافی حکمران اشرافیہ سے سوالات پوچھنے کی ہمت سے یقینا محروم ہوچکے ہیں۔ خان صاحب کا ضمیر مگر اب بھی توانا ہے۔ انتخابی محفل بھی کچھ اس طرح سے سجائی جارہی ہے کہ عمران خان صاحب کا اس کے عروج پر پاکستان کا وزیر اعظم منتخب ہونا تقریباََ یقینی نظر آرہا ہے۔جنگلوں اور صحرائوں میں زقندیں لگاتے ہر نوں کی طرح ہمارے ملک کی افسر شاہی جبلی طورپر ممکنہ وزیر اعظم کا انتخابی عمل مکمل ہوجانے سے قبل ہی سراغ لگالیا کرتی ہے۔
اسی باعث خان صاحب کے ایک دوست زلفی بخاری صاحب کو جب عمرہ پر جانے سے بلیک لسٹ میں نام ہونے کی وجہ سے روکا گیا تو منٹوں میں وزارتِ داخلہ تک رسائی نصیب ہوگئی۔ نگران حکومت نے انہیں خان صاحب کے ہمراہ عمرے کی سعادت حاصل کرنے کی اجازت دے دی۔حالانکہ خان صاحب نے بذاتِ خود ،بقول ان کی جماعت کے،کسی افسر سے اس ضمن میں رابطہ نہیں کیا تھا۔ زلفی بخاری نے ازخود ریلیف کے راستے بنالئے۔سرکاری افسروں میں موجود ممکنہ وزیر اعظم کو خوش رکھنے کی جبلت ہی کی وجہ سے بلاول بھٹو زرداری کو لاہور سے ایک نجی طیارے کے ذریعے پشاور پہنچ کر بلور خاندان سے تعزیت کی اجازت نہ ملی۔ سکیورٹی تحفظات کا اظہار ہوا۔بلاول کو انکار کرنے کے دو ہی گھنٹے بعد مگر خان صاحب کو اسی ایئرپورٹ سے خیبرپختونخواہ میں انتخابی مہم کے لئے روانہ ہونے دیا گیا۔چونکہ مجھ ایسے ضمیر فروش صحافیوں نے سوالات اٹھانا چھوڑ دئیے ہیں اس لئے میری عمران خان صاحب سے دست بستہ فریاد ہے کہ وہ نواز شریف کو ہیرو بننے سے روکنے کی خاطر میرے ذہن میں اٹھے چند سوالات کے جوابات حاصل کریں۔زمانہ طالب علمی میں میرا ضمیر زندہ ہوا کرتا تھا۔ ضیاء دور میں آزادیٔ صحافت کی جدوجہد میں بھی تھوڑا حصہ ڈالا تھا۔
ان سب کی وجہ سے کئی بار جیل جانے کا اتفاق بھی ہوا ہے۔ صحافت کو پیشہ بنانے کے ابتدائی ایام میں جرائم کی دنیا بھی میری Beatرہی ہے۔برسوں کی عملی مشق سے جمع ہوئے تجربات کی بدولت لہذا بہت اعتماد سے یہ بیان کرسکتا ہوں کہ انگریز کے دور سے متعارف ہوئے جیل مینوئل کے مطابق سورج ڈھلنے کے بعد جیل کے دروازے نہیں کھولے جاتے۔ سورج ڈھلتے ہی قیدیوں کی گنتی ہوتی ہے اور وہ اپنے لئے مختص ہوئے Cellsمیں صبح ہونے تک بند کردئیے جاتے ہیں۔شام ڈھل جانے کے بعد کسی جیل کا دروازہ کھولنے کی کسی سپرنٹنڈنٹ جیل کے پاس قوت ہی نہیں ہے۔13جولائی کی شام مگر احتساب عدالت سے سزا یافتہ مجرم نواز شریف اور ان کی دُختر لاہور آئے تو انہیں ایک خصوصی طیارے سے راولپنڈی لاکر اڈیالہ جیل کھلواکر وہاں منتقل کردیا گیا۔اس منتقلی کا لیکن جواز فراہم کیا جاسکتا ہے۔ مجرم 9بجے کے قریب اُترے تھے۔ احتساب عدالت سے سزا انہیں سنائی جاچکی تھی۔ اس سزا پر فوری عمل درآمد کے لئے 13جولائی کی رات اڈیالہ جیل کا دروازہ کھولنا ضروری سمجھا گیا ہوگا۔اس واقعے کے عین ایک روز بعد مگر نواز شریف صاحب کی والدہ اور دیگر قریبی عزیز ایک خصوصی طیارے میں راولپنڈی تشریف لائے
اور شام ڈھل جانے کے بعد نواز شریف اور ان کی دُختر سے ملاقات کی۔ ذاتی طورپر مجھے اس ملاقات پر کوئی اعتراض نہیں۔ غیر معمولی حالات میں ریاستیں کبھی کبھار بندھے ٹکے افسری ضابطوں اور اصولوں سے ہٹ کر بھی کچھ اقدامات لینے پر مجبور ہوجایا کرتی ہیں۔شام ڈھل جانے کے بعد جیل کا دروازہ کھول کر نواز شریف اور ان کی دُختر سے چند قریبی عزیزوں کی جیل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں ملاقات کروانا بھی ایک غیر معمولی فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کی وجہ سے خلقِ خدا کو یقینا یہ پیغام گیا ہے کہ نواز شریف اور ان کی دُختر عام مجرم نہیں ان میں یقینا ’’ہیرو‘‘ والی کوئی غیر معمولی بات ہے۔اپنے ضمیرکی بہت بھاری قیمت لگواکر اس ملک کے تمام صحافی باہم مل کر بھی نواز شریف اور ان کی دُختر کو 14جولائی 2018کی شام ڈھل جانے کے بعد اڈیالہ جیل کا دروازہ کھلواکر جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں قریبی عزیزوں سے ملاقات کا بندوبست نہیں کرسکتے تھے۔ احتساب عدالت کے سزا یافتہ مجرموں کو مذکورہ سہولت پہنچانے کا فیصلہ یقینا کہیں اور ہوا ہے۔۔صحافیوں کو ضمیر فروش ہونے کے طعنے دینے کے بجائے اس ملک میں قانون کی مکمل عملداری اور دو نہیں ایک پاکستان کی جدوجہد کرنے والے عمران خان صاحب جن کی صداقت اور امانت کی تصدیق پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت بھی کرچکی ہے،حکام بالا کو فوری طورپر طلب کریں۔ وہ حاضر نہ ہوں تو چند ناموں کو ’’اوئے‘‘ کے ساتھ پکارتے ہوئے خلقِ خدا کے لئے معلوم کریں کہ اڈیالہ جیل کا شام ڈھل جانے کے بعد دروازہ کھلواکر نواز شریف کو ہیرو کیوں بنایا جارہا ہے۔عمران خان صاحب سوالات اٹھا نہیں سکتے۔ اٹھابھی لیں تو جواب حاصل نہ کر پائیں تو خدارا فقط صحافیوں کو ضمیرفروشی کے طعنے نہ دیں۔ ایک پنجابی محاورے کے مطابق گدھے سے گرنے والا اس کے مالک کو برابھلا کہنا شروع ہوجاتا ہے۔ صحافیوں نے اپنا ضمیر تو بیچ دیا اب عمران خان صاحب اس ضمیر کو خریدنے والوں سے بھی کچھ سوالات پوچھ ہی لیں۔