لاہور (ویب ڈیسک) جس کی جتنی اوقات، جتنی قابلیت، جتنی اہلیت اور صلاحیت ہوتی ہے وہ اُس کے مطابق بات کرتا ہے، آج میں پنجاب کے وزیراعلیٰ بزدار کا کشمیر پر بیان پڑھ رہا تھا، جو ظاہر ہے اُن کی طرف سے اُن کے اُن جیسے کسی ترجمان نے ہی جاری کیا ہوگا، نامور کالم نگار توفیق بٹ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اُنہوں نے فرمایا”کشمیر پر دنیا کی خاموشی کسی بڑے سانحے کا باعث بن سکتی ہے“ …. یہ ایک الگ معاملہ ہے، ہمیں ہروقت خدشہ یہ بھی رہتا ہے اُنہیں اُن کی اوقات سے بہت زیادہ جس عہدے سے اُن کی پی ٹی آئی کے لیے نامعلوم خدمات کے بدلے میں نوازا گیا ہے کہیں کسی بڑے سانحے کا باعث نہ بن جائے کہ پنجاب کا تقریباً ہرشعبہ ہی بُری طرح متاثر ہورہا ہے، …. کشمیر پر اُن کے اس بیان پر اُن کی خدمت میں عرض ہے کشمیر پر دنیا کی خاموشی، خود پاکستان کا اب تک جو کردار ہے، وہ کسی بڑے سانحے کا باعث بن نہیں سکتا بلکہ بن چکا ہے، ہم ایٹمی قوت ہیں، اور کشمیریوں پر ہونے والی بھارتی دہشت گردی پر ہمارا کمزور کردار ایک سانحہ نہیں تو کیا ہے ؟ ….ایک شعر یاد آرہا ہے، ”حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا …. کوئی ٹھہرا نہیں حادثہ دیکھ کر“ …. کشمیر پر پاکستان کو جو دلیرانہ مو¿قف اپنانا چاہیے تھا، خصوصاً ایک ایماندار، اور نڈر وزیراعظم کی شہرت رکھنے والے شخص کو اِس موقع پر عالمی سطح پر جو فعال کردار ادا کرنا چاہیے تھا، اپنی عالمی شہرت کو جس طرح مسئلہ کشمیر پر کیش کروانا چاہیے تھا، فی الحال وہ اِس سے مکمل طورپر الگ ہیں، اُن کا کردار ٹوئیٹر وبیان بازیوں تک محدود ہے، ہم دعاگو ہیں اللہ اُنہیں اس ”چھاپ“ سے ہمیشہ کے لیے محروم رکھے کہ اُن کے دور میں بھارت کشمیر پر مکمل طورپر مسلط ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا “ ….المیہ یہ ہے ہماری اپوزیشن جماعتوں کا کردار بھی وہی ہے جو حکمرانوں کا ہے…. بلاول بھٹو زرداری مسئلہ کشمیر پر روزانہ ایک بیان جاری کرکے ، یا اپنی کسی تقریر یا پریس کانفرنس میں کشمیریوں پر ہونے والے ”مودی مظالم“ کی مذمت کرکے اپنی طرف سے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم یا بھارتی دہشت گردی کے خلاف بڑا ”جہاد“ کررہا ہے، اُس کے نانا ذوالفقارعلی بھٹو کشمیر پر بطور وزیراعظم پاکستان اور بطور وزیرخارجہ پاکستان بڑا دلیرانہ کردار ادا کرتے رہے ہیں، عالمی سطح پر اُن کا یہ کردار تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا، افسوس اُن کا نواسہ اُن کے اِس کردار کوکسی حوالے سے آگے نہیں بڑھا سکا، ….مولوی فضل الرحمان کئی برسوں تک کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کا،حالانکہ وہ صرف ”ڈیزل کمیٹی“ کا چیئرمین بننے کے قابل تھے، اُسے اُس کی اوقات سے بہت بڑھ کر نوازا گیا، وہ بھی اِس ”نوازش“ بلکہ نوازشات کی لاج نہیں رکھ سکے، یہ آج کی بات نہیں، کشمیریوں پر ہونے والی بھارتی درندگی پر اُن کا کردار ہمیشہ ہی منافقانہ رہا، یہ منافقت تاحال جاری ہے، …. نون لیگ کے سربراہ نواز شریف جیل میں ہیں، مریم نواز شریف بھی جیل میں ہے، مگر ساری جماعت تو ظاہر ہے جیل میں نہیں ہے، شہباز شریف سمیت اِس جماعت کے جو مرکزی رہنما جیل سے باہر ہیں کشمیریوں پر ہونے والی حالیہ بھارتی درندگی پر اُن کا کردار بھی محلِ نظرہے،…. ایک زمانے میں جماعت اسلامی دنیا بھر میں ہونے والے مسلمانوں پر ظلم وستم کے خلاف بڑا فعال کردار ادا کرتی تھی ، مسلسل پُرجوش مظاہرے کیے جاتے تھے، ریلیاں نکالی جاتی تھیں، دنیا کویہ پیغام دینے کی پوری کوشش کی جاتی تھی ” ہم زندہ قوم ہیں“…. اس ضمن میں اسلامی جمعیت طلبہ کا کردار بھی بڑا زندہ ہوتا تھا، جہاں تک اس معاملے میں ”زندہ قوم“ عرف ”ہجوم“ کاتعلق ہے صرف چند ہزار لوگ ہوں گے جو سوشل میڈیا کی حدتک کشمیریوں پر بھارتی دہشت گردی کی مذمت کررہے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں صرف زبانی کلامی مذمت سے بھارت کی صحت پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے، …. حالیہ ایکسٹینشن زدہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اُتنے متحرک دکھائی نہیں دیتے جتنے اس موقع پر بطور سربراہ افواج پاکستان اُنہیں ہونا چاہیے، اُنہیں دوماہ پہلے تین برسوں کی ایکسٹینشن دیتے ہوئے جواز یہ تراشنا پڑا ”ملک حالت جنگ میں ہے، انڈیا کے ساتھ ہمارے تعلقات بڑے کشیدہ ہیں، ان حالات میں سپہ سالار تبدیل نہیں کیا جاسکتا“ ،…. چلیں ہم مجبور حکومت کے اس کمزور مو¿قف کو درست تسلیم کرلیتے ہیں، مگر کشمیریوں پر ہونے والی بھارتی دہشت گردی کے خلاف عملی طورپر کوئی تو ایسی حکمت عملی اپنائی جائے، یا کوئی تو ایسا کارنامہ کیا جائے جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ یہحکمت عملی یا یہ کردار صرف قمر جاوید باجوہ ہی اختیار کرسکتے تھے، ….سیاسی قیادت کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کشمیر کے نام پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا، جو آپس میں گالم گلوچ اور سیاسی و ذاتی اختلافات کی نذر ہوگیا، کوئی مشترکہ مو¿قف ایسا نہیں اپنایا جاسکا جس سے ہندوستان کو یہ پیغام دینے میں ہم کامیاب ہوجاتے کہ اس کے کشمیریوں پہ مظالم اور جارحیت کے خلاف پورا ملک متحدہے، ہمارے سیاستدان آپس کے مسئلے اور معاملے حل نہیں کرسکتے، کشمیر کا مسئلہ انہوں نے کیا حل کرنا ہے ؟،وزیراعظم عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انتہائی پھُس پھُسی تقریر کی، جبکہ ہم اِس موقع پر اُن سے انتہائی دلیرانہ مو¿قف اپنانے کی توقع کررہے تھے، افسوس اس حوالے سے بھی وہ ہماری توقعات پر پورے نہیں اُترے، اِس سے اُن کی بزدلی ظاہر ہورہی تھی جب اپنی تقریر کے اختتام میں اپوزیشن لیڈر سے یہ پوچھ کر وہ بیٹھ گئے کہ کیا ہم انڈیا پر حملہ کردیں ؟“…. اپوزیشن لیڈر کا جواب بھی انتہائی بزدلانہ تھا، میں اس حوالے سے فواد چودھری کی اس بات کی تائید کرتا ہوں کہ جواباً شہباز شریف کو کُھل کر کہنا چاہیے تھا ”قدم بڑھاﺅ وزیراعظم ہم تمہارے ساتھ ہیں“ ،مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کچھ عالمی قوتوں نے پاکستان کی پوری سیاسی قیادت بلکہ غیر سیاسی قیادت کو بھی باقاعدہ ایک حکم یا ”گائیڈ لائن“ دی ہوئی ہے کہ کشمیر پر ہونے والی بھارتی دہشت گردی پر سوائے بیان بازیوں اور ٹوئیٹر بازیوں کے کچھ نہیں کرنا، ہم کشمیریوں پر ہونے والی بھارتی دہشت گردی پر دنیا کے کردار کو کیا روئیں کہ ہم خود ابھی تک ایسا کردار ادا نہیں کرپائے جس پر دنیا کشمیر پر ہمارے مو¿قف پر کھل کر ہمارا ساتھ دینے پر غور کرے، امریکہ کے شہر Seattleمیں یوم آزادی پر منعقد ہونے والی سب سے بڑی تقریب میں بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب میں، میں نے عرض کیا تھا ہمارے کشمیری بھائی اس وقت تین قسم کی دہشت گردیوں کا شکار ہیں، ایک دہشت گردی برس ہا برس سے بھارت اُن پر کررہا ہے، دوسری دہشت گردی مسلم اُمہ کی مسلسل خاموشی کی صورت میں اُن پر ہورہی ہے، اور یہ بھی اُن پر دہشت گردی ہی کی ایک قسم ہے کہ ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کا نعرہ بلند کرنے والے نہتے کشمیری اس نازک موڑ پر پاکستان کی عملی مدد سے محروم ہیں !!