جس روز سے.ہم پاکستان میں موجود ہیں،‘‘نیا پاکستان‘‘ کے سہانے خواب کو مسائل اور سوالات میں جکڑا ہوادیکھ رہے ہیں۔ گو کہ پہلے بھی کرپشن کا بازار گرم تھا لیکن عمران حکومت بھی سات ماہ سے کچھوے کی رفتار اپنائے ہوئے ہے۔ ڈالروں والوں کو بدلے میں اچھے روپے مل رہے ہیں لیکن روپوں کی بے برکتی میں مزید اضافہ ہو چکاہے۔ البتہ جس چیز میں نمایاں تبدیلی محسوس ہورہی ہے وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کا خوف ہے۔موجودہ حکومتی مشینری ماضی کی حکومتوں جیسی جگا بازی سے ہوشیار دکھائی دیتی ہے۔ یا سفارشی رعب کا کلچر کسی حد تک لاغر ہو چکا ہے جبکہ ملکی نظام میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی رونما نہیں ہو سکی۔ عمران خان جب سے وزارت عظمیٰ کی مسند پر براجمان ہوئے ہیں، ٹیلی ویژن اینکرز، کالم نگاروں، مبصرین اور تجزیہ کاروں کی طرف سے مشوروں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس کی نظیر پاکستان کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہمیشہ سے موجود کشیدگی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ کشمیر کے معاملے میں دونوں کے درمیان کشیدگی برقرارہے۔وزیر اعظم عمران خان نے درست کہا کہ امن نوبل انعام کا حقدار وہ خوش نصیب حکمران ہو گا جو کشمیر کو آزاد کرائے گا۔عمران خان اپنے خوشامدیوں سے اب کچھ کچھ بیزار دکھائی دینے لگے ہیں جو کبھی انہیں امن نوبل پرائز دلا رہے ہیں اور کبھی نعوذ باللہ اللہ کے بعد بڑا انسان ثابت کرنے پر مصر ہیں۔ ہمارا عمران خان سے ایک ہی نقطہ پر اختلاف رہا ہے کہ انہیں باہر سے نہیں اپنی پارٹی کے اندر سے مسائل درپیش ہیں۔ احمق سجن اور آستین کے سانپ انہیں ہمیشہ مس گائیڈ کرتے چلے آرہے ہیں اور اب ان کی حکومت کڑوا سچ عمران خان برداشت نہیں کر پاتے۔ اگر کبھی ملاقات ہوگئی تو روبرو انکشافات کریں گے۔گھر سے پارلیمنٹ تک عمران خان کے گرد سازش کا ایک جال بچھا ہواہے مگر یہ سادہ بندہ لوگوں کو فیس پر لیتا ہے ان کی لبازیوں تک پہنچنے سے قاصر ہے ۔ہم حق گوئی کے سبب خیر خواہوں کی فہرست سے شاید خارج سمجھے جائیں مگر ملک کی بہتری کا حق ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ اللہ خان صاحب کی رہنمائی فرمائے۔ مزید چند نام نہاد ساتھیوں سے خلاصی بھی اب نا گزیر ہو چکی ہے۔ فیصل واڈا جیسا جاہلانہ بیان اگر اپوزیشن کے کسی وزیر نے دیا ہوتا تو اب تک نفرت و مخالفت میں تحریک انصاف کے منہ سے جھاگ بہہ رہی ہوتی۔عمران خان کو امن نوبل انعام دلانے کی چاپلوسی پر خود عمران خان بھی شرمندہ ہیں۔بھارتی قیدی کی رہائی جیسے فیصلے فوج کی فیلڈ ہے وزیراعظم فقط اعلان کرتا ہے۔ جنگی و فوجی معاملات کا سیاستدانوں کی فیلڈ سے کیا تعلق۔ فوج ملک کے لئے جو بہتر سمجھتی ہے اقدام اٹھاتی ہے۔ امن نوبل پرائز اگر دینے کا اتنا ہی جذبہ ابل رہا تھا تو اس غازی جوان کو دینے کی خواہش کی جاتی جس نے دشمن کے طیارے مار گرائے۔ عمران خان کشمیر آزاد کرادیں تو نوبل پرائز کیا بیس کروڑ عوام کی جان بھی حاضر ہے۔احمق خوشامدی چاپلوسی ہر جماعت میں موجود ہوتے ہیں اور ان کے قائدین بھی ان جیسے ہی ہوتے ہیں جو انہیں اپنا مان سمجھتے ہیں۔ عمران خان کو اپوزیشن سے کوئی نقصان نہیں ان کے لئے یہی لوگ کافی ہیں۔ پاک بھارت جنگ کے خطرات ابھی ٹلے نہیں لہٰذا حکومت کو اپنی ٹیم میں رد بدل کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے متعلق استخارہ میں نظر ثانی میں بھی کوئی حرج نہیں۔ جنگ کے بارے میں انکشافات تشویشناک ہیں۔حکومتی ٹیم تجربہ کاراور سنجیدہ درکار ہے۔ پا کستان اور بھارت کے درمیان کشید گی کے دوران 27فروری کو بھارت نے اسرا ئیل کے ساتھ ملکر پاکستان پر میزائل حملے کا منصوبہ بنایا تھا‘8سے 9مقامات نشانے پر تھے ‘ انڈیانے راجستھان کی جانب سے کارروائی کا پلان بنایاتھا‘جنگ مسلط کرنے کی کوشش میں ان دونوں کے علاوہ ایک اورملک بھی شامل تھا‘ اسرائیل کی کوشش ہے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نقصان پہنچایاجائے‘ پاکستان کو حملے کی انٹیلی جنس اطلاع مل گئی تھی جس کے بعد ملک کی فضائی حدود بند کردی گئی‘انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پرایجنسیوں نے بھارت اور اسرائیل کا حملہ ناکام بنا دیا‘بھارت کو بتایاگیاکہ اگر حملہ ہواتو اس کا تین گنازیادہ جواب دیاجائے گا‘بھارت کے ممکنہ ٹارگٹ سے متعلق دوست ممالک کے ساتھ معلومات شیئر کی جا چکی ہیں۔اعلیٰ حکومتی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان پر میزائل حملے میں ناکامی کے بعد بھارت نے کراچی سمیت دیگر شہروں میں بڑے دہشت گرد حملے کرانے کا منصوبہ بنالیاہے۔۔۔پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے ایک ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ وہ اس بارے میں معلومات حاصل کر رہے ہیں کہ کیا پاکستان نے گزشتہ ہفتے انڈین طیارہ گرانے کے لیے امریکہ سے خریدے گئے ایف سولہ طیارہ استعمال کیے تھے۔ مسلمانوں کے ازلی دشمن اسرائیل کے علاوہ معاشی مفادات کے پیش نظر دنیا کا کوئی ملک پاک بھارت جنگ کی حمایت میں نہیں۔چین اور پاکستان دوست تو ہیں لیکن ملکوں کے مابین دوستی مفادات کی مرہون منت ہوتی ہے۔پاکستان اور انڈیا کے درمیان لڑی جانے والی جنگوں میں چین نے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے ان جنگوں میں پاکستان کی فوجی مدد نہیں کی تھی۔ جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا ماحول ہوتا ہے توپاکستان کو امید رہتی ہے کہ چین کی ہمدردی اس کے ساتھ رہے گی۔ کشمیر کے بارے میں چین کا موقف رہا ہے کہ دونوں ممالک اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے پلوامہ ضلع میں 40 نیم فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد انڈیا نے بالاکوٹ میں کارروائی کی۔ اس کے بعد پاکستان نے انڈیا کے جنگی طیارے کو مار گرایا اور پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔ اگرچہ پاکستان نے انڈیا کے پائلٹ کو رہا کر دیا لیکن حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔عمران خان کا تشخص کچھ اس انداز کا بن گیا ہے جو تبدیلی کے ساتھ جڑ گیا ہے۔ عمران خان کے حامی جہاں اْن کی قائدانہ صلاحیت اور نظریات پر پورا یقین کر رہے ہیں، اْن کے مخالفین بھی شدید مخالفت کے باوجود توقعات رکھتے ہیں۔ملکی حساس صورتحال میں عمران خان کو ایک با صلاحیت ٹیم ہی نہیں خوشامد سے پاک مشیروں کی بھی ضرورت ہے۔خوشامد پاکستانی سیاست میں وائرس کی مانند سرایت کر جاتی ہے جو ان کے دماغ کو کھا کر اسے کھوکھلا کر دیتا ہے اور یوں وہ لیڈر خوشامد سننے کا عادی ہو جاتا ہے۔ عمران خان اور اْن کی ٹیم نے اقتدار میں آنے سے پہلے مناسب انداز میں ہوم ورک نہیں کیا جو اْنہیں بہت پہلے کر لینا چاہئیے تھا۔ لہذا اب اقتدار میں آنے کے بعد غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے اور پاکستانی قوم نئے نئے تجربات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔