اسلام آباد (ویب ڈیسک) سینیٹر اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیصل جاوید خان نے گذشتہ روز وزیراعظم ہاؤس میں موجود بھینسوں کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جس پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ گیا ۔ سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ویڈیو میں
سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ یہ وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں ہیں ،جو بہت خوش نظر آ رہی ہیں کیونکہ انہیں پتہ چل گیا ہے کہ یہ کسی بادشاہ سلامت کی قید سے آزاد ہونے والی ہیں۔ یہ بھینسیں بادشاہ سلامت کی خدمت پر مامور تھیں لیکن یہ اب یہاں سے آزاد ہو رہی ہیں۔ سینیٹر فیصل جاوید کی اس ویڈیو پر ٹویٹر صارفین نے انہیں خوب آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ پاکستان تحریک انصاف میں ایسے رہنما موجود ہیں تو پھر حکومت کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔خاتون صارف نے کہا کہ یہ انتہائی بے ہودہ عمل ہے۔ٹویٹر صارف نے سینیٹر فیصل جاوید کا تمسخر اُڑاتے ہوئے کہا کہ ایک سینیٹر اور وزیراعظم عمران خان کے خصوصی اسسٹنٹ کی ”مج” رپورٹنگ۔ایک خاتون صارف نے کہا کہ کیا کوئی پاکستان تحریک انصاف کے نمائندوں کے لیے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیے جانے والے مواد کے حوالے سے کوئی پالیسی مرتب کر سکتا ہے؟ ان کا آئی کیو لیول کیا ہے یہ دنیا کو پتہ نہیں چلنا چاہئیے۔ایک اور ٹویٹر صارف نے فیصل جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تمہارے بارے میں اچھی رائے قائم کر رکھی تھی لیکن تم ایک اسٹیج پر اعلانات کرنے والے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ایک صارف نے
حکومت کو ہی آڑے ہاتھوں لے لیا اور کہا کہ کیا ہم نے اس کے لیے ووٹ دیا تھا ؟ برائے مہربانی اپنی ترجیحی فہرست پر ایک نظر ڈالئے۔سینیٹر فیصل جاوید کی اس ویڈیو پر انہیں دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر بھی تنقید کا سامنا ہے۔دوسری جانب ایک خبر کے مطابق پاکستان حکومت نے وزیر اعظم کی رہائش گاہ ‘ بھوجن سے متعلق ضرورتوں” کیلئے سابق پی ایم نواز شریف کے ذریعے رکھی گئی 8 ساتھی بھینسوں کی نیلامی کا فیصلہ لیاہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے ایک قریبی ساتھی نے یہ جانکاری دی۔ دراصل خراب معیشت سے جوجھ رہی عمران خان پاک حکومت نے فضول خرچی سے بچنے کی مہم چلا رکھی ہے۔ اس کے تحت 80 سے زائد عالیشان کاروں کی نیلامی کی جائے گی۔ وزیر اعظم کے سیاسی معاملات کے خصوصی معاون نعیم الحق نے کہا کہ حکومت پی ایم کی رہائش گاہ پر موجود عالیشان کاروں کی نیلامی کرے گی۔ وہ کابینہ ڈویژن میں بغیر استعمال والے چار ہیلی کاپٹر کو بھی بیچے گی ، پاکستانی ایکسپورٹ میں کمی اور امپورٹ اتار چڑھاؤ کے چلتی معیشت میں دالر کی کمی ، مقامی مدرا پر دباؤ اور غیر ملکی مدرا بھنڈار کی کمی کا شکار ہو رہا ہے۔ زیادہ تر مالی تجزیہ کاروں نے پیشن گوئی کی ہے کہ پاکستان 1980 کی دہائی کی شروعات سے 15 ویں بیل آؤٹ پیکج کیلئے آئی ایم ایف کی جانب رخ کرے گا۔ حالانکہ وزیر اعظم عمران خان نے کسی پر منحصر رہنے کے طور طریقوں کی تنقید کی ہے۔ حال ہی میں حال ہی میں قائم اقتصادی مشاورتی کونسل( ای اے سی ) کے ذریعے پاکستان لو چالون کھاتا گھاٹے سے ابرنے کیلئے طریقوں کی تیاری نے اس بات کی اور اشارہ کیا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج نہ لینے کیلئے عہد بستہ ہے۔