لاہور (ویب ڈیسک) عمران خان صاحب نے الیکشن سے قبل جو وعدے کیے تھے، ان میں سے ایک لوکل گورنمنٹ سسٹم کو فعال بنانا تھا۔ اختیارات اور تعمیراتی فنڈز کو نچلی سطح پر منتقل کرنا۔ عمران خان کے خیال میں ممبران اسمبلی کا کام قانون سازی ہے۔ گلیاں پکی کرانا اورنالیاں بنانا بلدیات کی ذمہ داری ہے۔نامور کالم نگار اور سابق بیوروکریٹ شوکت علی شاہ روزنامہ نوائے وقت میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ لوکل کونسل کے نمائندوں کو زمینی حقائق کا زیادہ ادراک ہوتا ہے۔ جو بات خان صاحب نے کھل کر نہیں کی لیکن یقیناً ان کے ذہن کے کسی گوشے میں کُلبلا رہی ہو گی۔ وہ یہ ہے کہ ممبروںکو کمیشن کے چکروں سے نکلنا چاہئے اور اصل کام کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ یہ کہتے ہوئے دوباتیں اپنے طور پر فرض کر لی گئی ہیں۔ اول یہ بلدیاتی نمائندے ایماندار اور باضمیر ہونگے اور وہ کسی قسم کی ہیراپھیری نہیں کریں گے۔ دوسرا ممبران اسمبلی کا شعور اس قدر پختہ ہو چکا ہے کہ وہ قانونی موشگافیوں کو سمجھتے ہیں اور بحث کے دوران احسن رائے دے سکتے ہیں۔ یہ دونوں مفروضے محلِ نظر ہیں۔ ممبر اسمبلی ہو یا بلدیاتی نمائندہ دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ اگر فرق ہے تو صرف اتنا جس کا ذکر شیکسپیئر نے کیاتھا۔ (OPPORTUNITY THOU FALT IS GREAT) موقع ملنے کی دیر ہوتی ہے، سب سُنہری اصول دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اگر ہم اپنے گزشتہ ستر سال کی تاریخ دیکھیں تو ممبران اسمبلی کی اکثریت انگوٹھا چھاپ رہی ہے۔ انہیں قانون سازی میں دلچسپی ہوتی ہے نہ شعور ہوتا ہے۔ یہ بیشتروقت اسمبلی میں نہیں بلکہ سرکاری دفاتر میں گزارتے ہیں۔ سفارشوں کا ایک پلندہ ہوتاہے۔
افسروں کو دھمکا کر یا ’’منت ترلا‘‘ کر کے کام نکلواتے ہیں۔ ان کی بھی اپنی مجبوری ہے ، جن لوگوں نے انہیں ووٹ دے کر اسمبلی تک پہنچایا ہے۔ ان کے جائز ، ناجائز کام توکرنے ہی پڑتے ہیں۔ رواج ایسا بن گیا ہے کہ یہ اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ نہیں دے سکتے۔ انہیں پارٹی ڈسپلن کا پابند رہنا پڑتا ہے۔ بصورتِ دیگر ممبری بھی جا سکتی ہے۔ پھر سال میں کتنے قانون بنتے ہیں؟ آمدند، نشتند ، خوردند، برخاستند والا معاملہ ہوتا ہے۔ حاضری لگوائی ۔ ڈیلی الائونس سمیٹا اور پھر۔ اسے ڈھونڈ چراغِ رُخ زیبا لیکر ، ایک لوکل گورنمنٹ کا نظام پرویزمشرف بھی لایا تھا۔ سکول میں ماسٹر شرف دین ’’راجہ ہل‘‘ کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے۔ یہ ایسا ہل ہے جو اوپر کی مٹی نیچے اور نیچے کی مٹی اُوپر کر دیتا ہے۔ جنرل پرویزمشرف نے بھی انتظامیہ پر راجہ ہل چلایا تھا۔ ایک اچھے خاصے نظام کو اتھل پتھل کر دیا۔ کسی نے اسے بتایا ہر صدرکی ایک ’’کانسٹی چیونسی‘‘ ہوتی ہے۔ ایوب خان پٹھان تھا، اسے پختونوں کی حمایت حاصل تھی۔ ضیاء الحق کا تعلق پاکستان کی بہت بڑی ارائیں برادری سے تھا، پھر اس نے دینی جماعتوں سے بھی الحاق کر رکھا تھا۔ تم بھی اپنی جماعت بنائو، سب ضلع، تحصیل ناظم، میئر اورمیونسپل چیئرمین تمہارے زیر بار ہونگے۔
چنانچہ وہ ایک ایسا نظام لے آیا جو نہ تیتر تھا نہ بٹیر۔ لاء اینڈ آرڈر کا بیڑہ غرق ہو گیا۔ ہرچہ بادا باد ہو گیا۔ ضلع ناظم نے دھونس اور دھاندلی کے ذریعے وہ اختیارات بھی استعمال کرنے شروع کر دئیے جو اسے تفویض نہیں کئے گئے تھے۔ گریڈ 1 تا 10 کے تبادلے وغیرہ کے اختیارات D.D.O کے پاس تھے۔ 11 تا 16 D.C.O کو تفویض کئے گئے تھے۔ یہ سب اختیارات ناظم نے ہتھیا لیے۔ ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر کو بُلا کر دور سے تبادلوں کی فہرست دکھاتا اور تحکمانہ لہجے میں کہتا۔ ’’ایتھے گھوگی پھیر دے‘‘ (یہاں دستخط کر دو) مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وہ تعمیل حکم کرتا۔ سیالکوٹ میں قیدیوں نے چند سول جج یرغمال بنا لئے۔ ڈسٹرکٹ جیل میں ضلع ناظم کو بلایا گیا کیونکہ لا ء اینڈ آرڈر کا انچارج وہ تھا۔ اس نے بے بسی سے کندھے اُچکائے بولا۔ میرا سر چکرا رہا ہے، آرڈر کیا دوں؟ اس نظام کا کھوکھلا پن اس وقت آشکار ہو گیا جب پرویز مشرف نے ریفرنڈم کروایا۔ تمام ضلع ناظموں کو ہدایت کی گئی کہ وہ چندا دیں۔ ملتان کے ناظم نے انکار کردیا۔ جب جنرل صاحب ملتان آئے تو ناظم صاحب بڑے طمطراق سے ملنے اسے ائیر پورٹ گئے۔ یہ ان کے فرائض منصبی میں شامل تھا۔
اُن کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ایک پولیس کانسٹیبل نے ناظم صاحب کو گیٹ پرروک لیا، بولا، حکم ہے کہ آپ اندر نہیں جا سکتے۔ اس طرح پرویز مشرف نے اپنے نافذ کردہ نظام کی دھجیاں بکھیر دیں۔ ایوب خان کو اس کے ایک گوہر یکتا (الطاف گوہر) نے مشورہ دیاکہ یہ قوم ابھی پوری جمہوریت کے قابل نہیں ہوئی اس لیے اس کو بنیادی جمہوریت کا درس دیا جائے ۔ امریکن صدارتی نظام کا چربہ اُتارا گیا۔ 80 ہزار یونین کونسلوں کے منتخب ممبر صدر پاکستان کا انتخاب کریں گے۔ اس نے 1956ء کا آئین توڑ کر اپنا آئین بنایا۔ خیال تھا کہ معروضی حالات میں اس کامقابلہ کوئی نہیں کر پائے گا۔ الیکشن کااعلان ہوا۔ ایوب خان منطقی امیدوار تھا۔ اسکا ’’ہاسا نکل گیا‘‘ جب اپوزیشن نے محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار کھڑا کر دیا۔ محترمہ کی سارے ملک میں پذیرائی دیکھ کر اسے پسینہ آ گیا۔ کتاب میں کوئی ایسی گالی نہ تھی جو اس نے مشیران کو نہ دی…وہ تو بھلا ہو نوکر شاہی کا جس نے دھاندلی کے سب ریکارڈ توڑ دئیے۔ اس طرح بنیادی جمہوریتوں کا تجربہ بھی ناکام ہو گیا۔اب عمران خان صاحب جووزیراعظم پاکستان بن چکے ہیں، ایک نیا لوکل گورنمنٹ ایکٹ لانا چاہتے ہیں۔
اس میں لارڈ میئرز اور ضلع و تحصیل کونسلوں کے چیئرمینوں کا انتخاب براہ راست ہو گا اور انہیں وہ مالی و انتظامی اختیارات حاصل ہونگے جن کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ ن لیگ بالخصوص اور دیگر پارٹیوں نے اعتراض کیا ہے کہ موجودہ اداروں کوان کا وقت پورا کرنے دیا جائے۔ ان کا قبل ازوقت توڑنا صریحاً دھاندلی ہو گی۔ ان کو ہی مالی اختیارات دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔ خان صاحب کو یہ تجویز منظور نہیں ہو گی کیونکہ انہیں تو ہر سطح پر اپنے آدمی چاہئیں ۔ اتنی خطیر رقم مخالف فریق کے نمائندوں کو کیسے دی جا سکتی ہے۔ چونکہ سینٹ میں ان کی اکثریت نہیں ہے اس لئے یہ معاملہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں جائے گا۔ اس صورت میں ایکٹ کے پاس ہونے کے امکانات ففٹی ۔ ففٹی ہیں۔ہم خان صاحب کی خدمت میں ایک خطرے کی نشاندہی بروقت کر دینا چاہتے ہیں۔ ممبران اسمبلی اس وقت تو منقار زیر پر ہیں۔ نئی نئی حکومت آئی ہے۔ جب یہ تمام مالی اختیارات کو اپنے ہاتھ سے جاتا دیکھیں گے تو بالآخر مزاحمت پر اُتر آئیں گے۔ الیکشن جیتنے میں یہ فنڈ بہت کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ بااثر فریقین کو رام کرنے کا یہ موثر ذریعہ ہے۔ ایک ممبر تھانیدار، تحصیلدار کے ذریعے مقامی سیاست کرتا ہے۔ حکومت نے پولیس اور انتظامیہ کو ان کے اثر رسوخ سے آزاد کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ بالفرض ایسا ہو جاتا ہے تو ان کے پاس بچے گا کیا۔؟ لاوا جب زیادہ پک جاتا ہے تو پھوٹ پڑتا ہے۔ اس کی زد میں آئی ہوئی ہرچیز تہس نہس ہوجاتی ہے۔ خیبر پی کے، کے تجربات پنجاب میں موثر نہیں ہو سکتے اور آخری بات! سرائیکی صوبہ بننے میں اب کوئی امر مانع نہیں ہے۔ ن لیگ بھی اس کو سپورٹ کرے گی کیونکہ اس صورت میں مرکزی پنجاب میں اس کے حکومت بنانے کے امکانات واضح ہو جاتے ہیں۔ بہاولپور الگ صوبہ بننا چاہئے ۔ اس تنازعہ کا نقصان بھی تحریک انصاف کو ہونا ہے۔