لاہور (ویب ڈیسک) صوبہ جنوبی پنجاب کے معاملے میں عملی طور پر تو ایک رتی برابر بھی پیش رفت نہیں ہوئی۔ باقی کا تو چھوڑیں گھر کے اندر گھڑمس مچا ہوا ہے۔ صوبہ جنوبی پنجاب کے لیے قائم پی ٹی آئی کی کمیٹی کے سربراہ طاہر بشیر چیمہ بڑے دعوے سے کہہ رہے ہیں کہ نامور کالم نگار خالد مسعود خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یکم جولائی 2019 ء سے اور کچھ نہیں تو کم از کم جنوبی پنجاب کے لیے علیحدہ سیکریٹریٹ ضرور بن جائے گا اور پھر علیحدہ صوبے کے لیے بھی عملی اقدامات کیے جائیں گے۔ دوسری طرف ان کے سگے بھائی اور مسلم لیگ ق کی جانب سے منتخب ایم این اے طارق بشیر چیمہ صوبہ جنوبی پنجاب کے بجائے دو علیحدہ صوبوں کی بات کر رہے ہیں۔ صوبہ جنوبی پنجاب‘ جو ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژن پر مشتمل ہو اور صوبہ بہاولپور‘ جو بہاولپور ڈویژن پر مشتمل ہو۔ بہاولپور ڈویژن میں تین اضلاع بہاولپور‘ بہاولنگر اور رحیم یار خان شامل ہیں۔ طارق بشیر چیمہ اپنے مؤقف پر بڑے شدومد سے ڈٹے ہوئے ہیں۔بہاولپور ڈویژن میں تب پانچ قومی اسمبلی کی نشستیں تھیں اور ان پانچ میں چار سیٹیں متحدہ محاذ کے حمایت یافتہ امیدواروں نے جیت لیں۔ تب عالم یہ تھا کہ لوگ گو کہ اپنی اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے مگر ان کو متحدہ محاذ کی نہ صرف حمایت حاصل تھی بلکہ متحدہ محاذ نے انہیں اپنا امیدوار بھی قرار دیا ہوا تھا اور ان کے پوسٹروں پر متحدہ محاذ کا نام درج تھا۔ بہاولپور اور رحیم یار خان میں متحدہ محاذ نے کلین سویپ کیا جبکہ بہاولنگر سے ایک سیٹ پر ہار گئے۔یہ الیکشن نہیں ”ریفرنڈم‘‘ تھا جو بہاولپور والوں نے ”بہاولپور متحدہ محاذ‘‘ کے نام سے لڑا اور جیت کر دکھایا۔ اس الیکشن کے بعد مشرقی پاکستان کے حالات خراب ہو گئے جو بالآخر بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئے۔ اس ساری گڑ بڑ کے دوران مغربی پاکستان کی قومی اسمبلی کے ارکان جن کی اکثریت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتی تھی‘ نے مرکز میں حکومت بنا لی۔ صوبوں میں بھی حکومتیں بن گئیں۔ پنجاب اور سندھ بھی پیپلز پارٹی کے پاس چلے گئے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی بچے ہوئے پاکستان میں سیاسی حالات نے اس تیزی سے کروٹ لی کہ بہاولپور صوبہ تحریک پس منظر میں چلی گئی اور حالات کے نئے تقاضوں نے یہ سارا مسئلہ وقت کی گرد میں دھندلا کر دیا۔ کبھی کبھار اس باسی کڑھی میں ابال آ جاتا تھا۔ ہمارے دوست محمد علی درانی بھی اس مسئلے پر کبھی بڑے سرگرم تھے اور آج کل کبھی کبھار ٹی وی پر اس ایشو کو زندہ رکھنے کے علاوہ گوشہ نشین بلکہ کسی کونے کھدرے میں روپوش ہیں۔ اب اس مسئلے کو طارق بشیر چیمہ نے اچھال رکھا ہے اور صوبہ جنوبی پنجاب کے مقابلے میں صوبہ بہاولپور کا معاملہ نہ صرف اٹھا رکھا ہےبلکہ وہ اس معاملے میں بہت تندوتیز بیانات بھی دے رہے ہیں اور اپنے موقف پر بڑی سختی اور ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی صوبہ جنوبی پنجاب کے لیے قائم کردہ کمیٹی کے سربراہ ان کے سگے بھائی طاہر بشیر چیمہ صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کے لیے نہ صرف پرامید ہیں بلکہ اس پر کام بھی کر رہے ہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ نئے صوبہ کے قیام کے لیے آئینی طے شدہ طریقہ کار کے مطابق صوبہ پنجاب‘ قومی اسمبلی اور سینٹ میں دوتہائی اکثریت کے ووٹ درکار ہیں۔ اگر دوسری صورت اختیار کی جائے اور آئین میں نئے صوبے بنانے کے لیے اس پیچیدہ طریقہ کار کو ہی بدلنے کے لیے ترمیم کی جائے‘ تب بھی قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت درکار ہے جو تحریک انصاف کو حاصل نہیں۔ بلکہ دوتہائی چھوڑیں‘ صورتحال یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کو جو سادہ اکثریت حاصل ہے اس میں ایک بڑا کردار مسلم لیگ ق کے پانچ ووٹوں کا ہے اور طارق بشیر چیمہ جو ان پانچ ووٹوں کی حامل جماعت کے زور دار لیڈر ہیں انہوں نے کہا ہے کہ یا بہاولپور صوبہ بنے گا یا پھر کوئی صوبہ نہیں بنے گا۔ یعنی دما دم مست قلندر ہوگا۔