فن تحریر میں طفلِ مکتب ہونے کا ادراک رکھنے کے باوجود قلم اٹھانے کی گُستاخی پر پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔ لکھنے کی وجہ محترم عمران خان صاحب کے گیارہ نکات ہیں جو مجھ ناچیز کی رائے میں بارہویں نکتے کے بغیر نہ صرف ادھورے بلکہ ناقابل عمل بھی ہیں۔ کیوں اور کیسے؟ یہ سمجھنے کےلیے ہمیں بارہواں نکتہ جاننے کی ضرورت ہے۔
میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اہم ترین سرکاری اداروں میں اہم ترین ذمہ داریوں پر براجمان ہونے کے باوجود ان ذمہ داریوں سے عہدہ برأ ہونے کی اہلیت سے محروم ہیں۔ میں نفسیاتی مریضوں کو حساس ترین اداروں میں ملازمتیں کرتے دیکھتا ہوں اور ان نفسیاتی مریضوں کو بھرتی کرنے والوں کی عقل کو داد دیتا ہوں۔ قصور بھرتی کرنے والوں کا بھی نہیں کہ ان میں یہ قابلیت تھی ہی نہیں کہ وہ بھرتی کرنے جیسے حساس کام کےلیے چُنے جاتے۔ اُن بے چاروں کو تو اپنی روزمرہ ذمہ داریوں سے اچانک ہٹا کر یہ ذمہ داری دے دی گئی تھی کیوں کہ سول سروس ایکٹ کا تقاضا یہی تھا۔
ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ یہاں سرکاری اداروں میں ایچ آر (، ایچ آر ایم ( اور اس کے تحت ایچ آر آر اینڈ ڈی (کا کوئی ونگ سرے سے موجود ہی نہیں؛ اور اگر کہیں برائے نام موجود ہے تو نام نہاد ایچ آر ڈیپارٹمنٹ میں ایچ آر کے تعلیمی پس منظر رکھنے والے لوگ موجود نہیں۔ ہمارے ہاں ایچ آر کا انتظام ایڈمنسٹریشن ونگ سے چلایا جاتا ہے۔ نتیجتاً متعلقہ ذمہ داری کی نوعیت سے انجان لوگ بھرتی کر لیے جاتے ہیں جن سے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ریسرچ اور انوویشن ( کی امید رکھنا ہی فضول ہے۔
اور تو اور، ہمارے ہاں سی ایس پی افسران کی بھرتی کا جو معیار طے ہے اسے دیکھ کر بے اختیار ہنسی آتی ہے۔ عہد جاہلیت کے عرب شعراء کی بیہودہ شاعری کا اچھا رٹا لگا لو تو پلیسمنٹ ( آسان اور انگریزوں میں بھی متروک ہوچکی انگریزی جتنی بہتر ہوئی، اتنا پاس ہونا آسان۔ وگرنہ زمانے کے ارسطو بھی انگریزی کے مضمون میں پاس نہ ہوں گے اور میں پاس نہ ہونے کا انجام سبھی جانتے ہیں۔ باقی رہ گئے ایف پی ایس سی افسران یا پی ایس سی افسران تو کچھ سال پہلے تک محض ایک کا پرچہ دے کر بھرتی کیے جاتے تھے۔ اب سنا ہے کہ ایک انگریزی مضمون بھی لکھنا ہوتا ہے وہ بھی کچھ محکموں کےلیے۔ نہ کوئی اور نہ کوئی نفسیاتی فٹنس کا معیار
گریڈ 16 سے نیچے کا تو اتنا برا حال ہے کہ اس پر تفصیلی گفتگو ہوسکتی ہے اور وہ بھی کئی دن تک، کہ کس طرح ایک ڈیپارٹمنٹل سلیکشن کمیٹی میں بجائے ہیومن ریسورس مینجمنٹ کے ماہرین اور سائیکالوجسٹس کے وہ لوگ رکھے جاتے ہیں جن کو کی ’’الف ب‘‘ بھی نہیں آتی اور پھر امیدواروں سے محض دنیا کے شہروں کے نام انٹرویو میں پوچھ کر متعلقہ نہ رکھنے والوں کو بھرتی کرکے فقط ایک خاندان کی روزی روٹی کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اس ایک نااہل فرد کی نااہلی کتنے ہزار افراد کو بلاواسطہ متاثر کرتی ہے؟ کسی کو سروکار تک نہیں ہوتا۔
یہاں تک تو بھرتی کے معاملات کا ایک فیصد خاکہ تھا۔ اب ہم آتے ہیں ان چند لوگوں کی طرف جو اہلیت رکھتے ہوئے اس سسٹم کے سارے پیچ و خم کا مقابلہ کرتے کرتے سسٹم میں داخل تو ہوگئے اور اس قوم و ملک کےلیے اپنی صلاحیتیں وقف کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں، لیکن عمران خان صاحب کا وہی گمشدہ بارہواں نکتہ انہیں ایسا کرنے نہیں دیتا۔
وہ کیوں؟ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے لوگ اچھی طرح سے سمجھ گئے ہوں گے اور غیر سرکاری لوگوں سے گزارش کرتا چلوں کہ آپ کتنے بھی لائق، محنتی اور فرض شناس کیوں نہ ہوں، آپ کا باس یا اُس کے اوپر کوئی بھی ( جب تک نہیں چاہے گا، آپ ملک وقوم کےلیے نہ کچھ کر سکتے ہیں اور نہ ہی اگلے عہدے پر ان کی مرضی کے بغیر ترقی پاسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کی ترقی اسی وقت ہوگی جب آپ سے اگلا بندہ (بلحاظ سروس) ترقی نہیں پالیتا، خواہ وہ ایک نفسیاتی مریض ہی کیوں نہ ہو۔
وقت اور جگہ کی قید نہ ہو تو ہر ایک سرکاری محکمے کے بگڑنے کے اسباب، اس کے اثرات اور تدارک پر کئی درجن کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ اب محترم عمران خان صاحب اگر واقعی اپنے گیارہ نکات پر عمل کروانا چاہتے ہیں تو انہیں یہ ادراک تو یقیناً ہوگا کہ وہ اکیلے تو تمام کام نہیں کرسکتے، اور یہ بھی کہ انہیں ان ہی اداروں کے ان ہی لوگوں کے ذریعے اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانا پڑے گا جو موجودہ سرکاری اداروں میں بھرتی کے موجودہ قوانین اور ان اداروں کو چلانے کی موجودہ روش کے ہوتے ہوئے ایک ناممکن عمل ثابت ہوسکتا ہے۔ میری صرف اتنی سی گزارش ہے کہ وہ اپنے گیارہ نکات میں ایک بارہواں نکتہ
بھی اپنے منشور میں شامل کرلیں تو شاید کچھ بہتری لاسکیں ورنہ مجھے ڈر ہے کہ عمران خان کا اپنی قوم کےلیے جو بائیس سال کا صبر آزما سفر ہے، اُسے یہ لوگ اپنی نااہلی کے ستر سالہ تجربہ سے مات نہ دے دیں۔