اس بار گزشتہ برسوں کے مقابلے میں شوکت خانم میمور یل ہسپتال کے فنڈ ریزنگ افطار ڈنر کے موقع پر معمولی ہی سہی کچھ تبدیلیاں تھیں۔ عمران خان وزیراعظم بن چکے وہ ہر سال کی طرح موجود تھے۔ آج انہوں نے سفید شلوار قمیض پر ویسٹ کوٹ پہنی ہوئی تھی، واسکٹ کا انہوں نے ماضی میں تکلف نہیں کیا تھا۔ اس عارضی ہال میں وزیراعظم کا پروٹوکول نظر آیا نہ انکی آمد اور رخصتی پر ہلہ گلہ ہوا نہ تہنیتی نعرے گونجے۔
عمران خان اپنی تقریرکے بعد سٹیج پر ہی کھڑے ہو کر لائن میں لگے لوگوں سے نقد یا چیک کی صورت میں عطیات وصول کیا کرتے تھے۔ لوگ تصویر کشی کے شوق میں جوق در جوق طویل لائن میں لگ جاتے۔ لائن اس مرتبہ بھی لگی جو گزشتہ برسوں کی نسبت ذرا طویل تھی مگر لائن میں کھڑے لوگوں کے جذبہ شوق پر اس وقت اوس پڑ گئی جب خود عمران خان نے کہا کہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے وہ عطیات وصول نہیں کر سکیں گے۔ یہ ذمہ داری ہسپتال کے سی ای او فیصل سلطان نے نبھائی۔ سٹیج پر ہونیوالی تقریروں میں وزیر اعظم کی صاحب سلامت نظر نہیں آئی۔ ڈنر سپانسر اور تقریریں کرنیوالے وہی پہلے برسوں والے لوگ ہی تھے۔
گزشتہ سال دوسرے افطار ڈنر پر 12 کروڑ روپے کا ہدف رکھا گیا تھا۔ 6 کروڑ روپے جمع ہوئے تو علیم خان نے چھ کروڑ روپے دینے کا اعلان کر کے ہدف مکمل کر دیا۔ اس مرتبہ پہلے افطار ڈنر پر بھی 12 کروڑ روپے پر فنڈ میٹر ایڈجسٹ کیا گیا تھا۔ عمران خان کے سٹیج پر کھڑے ہو کر عطیات وصول نہ کرنے کے باوجود 25 کروڑ روپے جمع ہوئے۔ یہ یقیناً ریکارڈ ہے۔ رواں سال 13 ارب روپے کی ضرورت ہے اس میں سے قریباً آدھی رقم ہسپتال صاحب ثروت مریضوں کے علاج اور ٹیسٹوں کے ذریعے اکٹھے کرتا باقی رقم زکواۃ صدقات اور عطیات سے پوری کی جاتی ہے۔ 75 فیصد مریضوں کا علاج فری ہوتا ہے۔ انکے علاج کیلئے اندرون اور بیرون ممالک فنڈز ریزنگ کی جاتی ہے۔ عمران خان جس میرٹ کی بات کرتے ہیں وہ ان کے ہسپتال میں نظر آتا ہے۔ انکی تقریر عموماً فنڈ ریزنگ تک محدود ہوتی ہے۔ اس مرتبہ انہوں نے ہسپتالوں کی حالت زار کی بات کرتے ہوئے سرکاری ہسپتالوں کو شوکت خانم کی طرح عالمی معیار کے برابر لانے کا عزم ظاہر کیا۔
کوئی مانے یا نہ مانے، عمران خان کے ہسپتال میں بے وسیلہ لوگوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ سیاسی مقاصد کے لیے کچھ لوگوں نے فنڈز کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی جس سے کچھ عرصہ فرق بھی پڑا، عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد فنڈنگ ریزنگ دُگنا ہو گئی۔ یہ شاید ان معصوم مریضوں ا ور ان کے لواحقین کی دعائوں کی بدولت ممکن ہوا ہے کہ عمران خان وزیراعظم بن گئے۔
فنڈ ریزنگ کی ڈنر تقریب کے ایک سپانسر انجم نثار بھی ہیں۔ انہوں نے اس مرتبہ بھی تقریر کی۔ انہوں نے دو کروڑ روپے کی ڈونیشن دی۔ ان کے والد کا علاج اسی ہسپتال میں ہوا۔ وہ بتا رہے تھے ، ہم نے علاج کا خرچہ برداشت کیا جو سہولت ان کے والد کو حاصل تھی وہی ساتھ کے بیڈ پر موجود مستحق مریض کو بھی دستیاب تھی۔پیڈ اور ان پیڈ میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔ انجم نثار شروع سے ڈونیشن دے رہے ہیں۔ ان کے خاندان کی ایک بچی کو ہسپتال میں کینسر آخری سٹیج پر ہونے کے باعث ان کی سفارش اخراجات برداشت کرنے کی استعداد کے باوجودداخل کرنے سے انکار کر دیاگیا،اس پر انجم نثار سخت ناراض ہوئے۔ تھوڑے دنوں بعد بچی فوت ہو گئی۔ انجم نثار کا یہ سوچ کر غصہ کم اور پھر ختم ہو گیا کہ میرٹ کو فالو کیا گیا ہے۔ آخری سٹیج کے مریض جس کے بچ جانے کا امکان نہیں ہوتا ، اسے داخل کرنے کے بجائے ایسے مریض کوداخل کیا جاتا ہے جس کے بچ جانے کے امکانات ہوتے ہیں۔ یہ ارشاد تو ہر مسلمان کو ازبر ہے جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔ غریب نادار اور مفلسی کی چکی میں پسے لوگوں کو بچانا پوری انسانیت کو بچانا ہے۔ صاحب استطاعت لوگ ایساکر رہے ہیں۔ صاحب استطاعت سے مطلب کروڑ اور ارب کھرب پتی ہونا نہیں ہے جس کی استعداد دس بیس 100 دو سو پانچ سو ہزار کی ہے وہ بھی صاحب استطاعت ہے۔ 2009ء سے فنڈ ریزنگ کی ان تقریبات کا شاہد ہوں۔ایک تقریب میں فریال گوہر نے اپنے حصے میں آنیوالی زمان پارک کی کوٹھی عطیہ کی تھی جو شوکت خانم انتظامیہ نے ڈیڑھ کروڑ میں فروخت کر کے پیسے فنڈ میں جمع کئے ۔ اس سے اگلے سال عتیقہ اوڈوھو نے بھی ایک کروڑ کا عطیہ دیا ۔اس بار اڑھائی کروڑ کا عطیہ دینے والے کسی شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کو کہا ،لاکھوں دینے والے ایسے کئی اور بھی تھے۔ اللہ اپنے اوپر قرض نہیں رکھتا‘ عمران خان کو اسکے مقصد میں سرخرو کیا۔ پاکستان کا اعلیٰ ترین منصب عطا فرمایا۔ وہ جس مقصد کیلئے سیاست میں آئے‘ اس میں بھی کامیاب ہونگے۔ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر میں نوازشریف کا بھی نام اور کردار ہے جس کی گواہ انکے نام کی افتتاحی تختی ہے۔ شاید اسی سبب میاں نوازشریف بہت سے مصائب و آلام سے محفوظ ہوں۔